انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چاہیں تصرف فرمائیں، ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی، کسی کو ذرا بھی مجالِ چوں وچرا نہیں اور حکیم ہونے کی بنا پر اطمینان ہے کہ ان کا جو تصرف ہوگا، سراسر حکمت ہی ہوگا، پھر پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔ ف: سبحان اللّٰہ! کیا اعلیٰ درجہ کا مراقبہ ہے، اگر اس کو پختہ کر لیا جاوے تو ظاہری یا باطنی کسی قسم کی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔علاجُ الخیال : فرمایا کہ ایک سالک مبتلائے امراضِ باطنہ خیالیہ کو تحریر فرمایا کہ اس کا سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیلّات کا ہجوم ہو، اپنے قصد واختیار سے کسی نیک خیال کی طرف فوراً متوجہ ہو جانا اور متوجہ رہنا چاہیے، اس کے بعد بھی اگر تخیلات باقی رہیں یا نئے آویں، ان کا رہنا یا آنا یقیناً غیر اختیاری ہے کیوں کہ مختلف قسم کے دو خیال ایک وقت میں اختیاراً جمع نہیں ہوسکتے، بس اشتباہ رفع ہوگیا اور اگر بالاختیار اچھے خیال کی طرف توجہ کرنے میں ذہول ہو جاوے تو جب تنبیہ ہو ذہول کا تدارک تو استغفار سے کرے اور پھر اسی تدبیرِ استحضار سے کام لیا جاوے۔سب مُریدوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کی ضرورت نہیں : حضرت والا نے فرمایا کہ پہلے مدّتوں میں اس غلطی میں رہا کہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہیے جس کی وجہ سے بہت تنگیاں اُٹھائیں، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ حقیقت منکشف فرما دی کہ اس کی ضرورت نہیں، کیوں کہ خود حضرت اقدسﷺ کا جو معاملہ خصوصیت کا حضراتِ شیخین کے ساتھ تھا وہ دوسرے حضراتِ صحابہؓ کے ساتھ نہ تھا۔ چناںچہ حضورﷺ حضراتِ شیخینؓ کو اپنی مجلس شریف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اور تبسُّم فرمایا کرتے تھے اور اسی طرح وہ دونوں حضرات بھی حضورﷺ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور تبسم فرمایا کرتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ واجبات میں یکساں برتاؤ ضروری ہے مستحبات میں نہیں۔تصوّرِ شیخ کب مناسب ہے : فرمایا کہ اگر بے اختیار تصورِ شیخ پیدا ہوجائے تو مضائقہ نہیں، بلکہ نافع ہے، ورنہ حق تعالیٰ ہی کا تصور رکھے، کیوں کہ وہی مطلوب ومقصودِ اصلی ہے، حضرت حاجی صاحب ؒ کی یہی تعلیم تھی۔متوسّط اور منتہی کی عجیب مثال : ایک بار فرمایا کہ متوسط کی حالت تو اس ہرے بھرے کھیت کی سی ہے جو دیکھنے میں تو نہایت خوش منظر ہے، لیکن حالتِ موجودہ میں وہ سوائے اس کے اور کسی کام کا نہیں کہ بس کاٹ کر بیلوں کو کھلا دیا جاوے، یعنی صرف مویشیوں کا چارہ ہے اور بس۔ برخلاف اس کے منتہی کی حالت اسی گیہوں کے کھیت کی سی ہے جو پک کر خشک ہوگیا ہو، دیکھنے میں تو بالکل بے رونق رُوکھا پھیکا، سُوکھا ساکھا ہو، لیکن اس میں دانہ پڑا ہو اور غلہ بھرا ہو جو کاشت کا اصلی مقصود ہے جب چاہو اس سے غلہ حاصل کر لو اور غذا کے کام میں لے آؤ، یعنی انسان کی غذا ہے، اسی طرح متوسّط میں محض کیفیات ہی ہوتی ہیں جو عام نظر میں بہت باوقعت ہوتی ہیں اور بزرگی کی علامات میں سے سمجھی جاتی ہیں۔ برخلاف اس