انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں کوئی امر واقعی قابلِ قبول ہو تو اس کو قبول کرکے اس پر عمل کیا جاوے۔بے ادبی شیخ کی زیادہ مُضر ہے معصیت سے : فرمایا کہ اہل اللہ کے دل دُکھانے والے اور ان کے ستانے والوں کا اکثر یہی انجام ہوتا کہ وہ مبتلائے آلام ومصائبِ ظاہری وباطنی کر دیے جاتے ہیں جس کا بعض اوقات خود ان کو بھی احساس ہونے لگتا ہے اور پھر ان میں سے بعض متنبہ ہوکر تائب بھی ہو جاتے ہیں، بالخصوص تعلقِ ارادت قایم کر لینے کے بعد پھر گستاخی اور بے ادبی کرنا تو خاص طور سے زیادہ موجبِ وبال ہوتا ہے۔ چناںچہ اس تعلق میں بعض اعتبارات سے معصیت اتنی مضر نہیں جتنی بے ادبی مُضر ہو جاتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ معصیت کا تعلق تو حق تعالیٰ سے ہے اور چوںکہ وہ تاثیر وانفعال سے پاک ہیں، اس لیے توبہ سے فوراً معافی ہو جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ویسا ہی تعلق پیدا ہو جاتا ہے، بخلاف اس کے بے ادبی کا تعلق شیخ سے ہے اور وہ چوں کہ بشر ہے، اس لیے طالب کی بے ادبی سے اس کے قلب میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے جو مانع ہو جاتی ہے تعدیہ فیض سے۔شیخ کے قلب کا تکدّر طالب کے قلب کو تیرہ ومکدّر کر دیتا ہے : حضرت والا نے حضرت حاجی صاحب ؒ کی ایک مثال بیان فرمائی کہ اگر کسی چھت کی میز اب کے مخرج میں مٹی ٹھونس دی جاوے، تو جب آسمان سے پانی برسے گا، تو گو وہ چھت پر تو نہایت صاف وشفاف حالت میں آئے گا، لیکن جب میزاب میں ہوکر نیچے پہنچے گا تو بالکل گندلا اور میلا ہوکر۔ اسی طرح شیخ کے قلب پر جو ملائِ اعلیٰ سے فیوض وانوار نازل ہوتے رہتے ہیں ان کا تعدیہ ایسے طالب کے قلب پر جس نے شیخ کے قلب کو مکدّر کر رکھا ہے، مکدّر صورت ہی میں ہوتا ہے، جس سے طالب کا قلب بجائے منور ومصفا ہونے کے تیرہ ومکدّر ہوتا چلا جاتا ہے۔تکدّرِ شیخ طالب کے داعیہ عمل کا مفّوت اور دُنیوی وبال کا لانے والا ہے : حضرت ولا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے شیخ کے قلب کو مکدّر کرنے اور مکدّر رکھنے کا طالب پر یہ وبال ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں جمعیّتِ قلب کبھی میسر نہیں ہوتی اور وہ عمر بھر پریشان ہی رہتا ہے، لیکن چوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر فعل موجبِ تکدّرِ شیخ معصیت ہی ہو، اس لیے ایسی صورت میں اس فعل سے براہِ راست تو کوئی دینی ضرر نہیں پہنچتا، لیکن بواسطہ وہ اکثر سبب ہو جاتا ہے دینی ضرر کا بھی جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اول شیخ کے قلب کا تکدّر سبب ہوتا ہے طالب کے انشراحِ قلبی کے زوال کا اور پھر یہ عدمِ انشراح اکثر سبب ہو جاتا ہے کوتاہیٔ اعمال کا اور پھر یہ کوتاہیٔ اعمال سبب ہو جاتی ہے دینی اور اُخروی وبال کا۔ گو عدمِ انشراح کی حالت میں بھی اگر وہ اپنے اختیار اور ہمت سے برابر کام لیتا رہے اور اعمالِ صالحہ کو بہ تکلف جاری رکھے تو پھر کوئی بھی دینی ضرر نہ پہنچے، لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ انشراح کے فوت ہو جانے سے اعمال میں بھی کوتاہیاں ہونے لگتی ہیں اور