انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کھانے کی رغبت : فرمایا کہ کسی چیز کے لینے یا کھانے سے عذر کر دینا حالانکہ ضرورت ہو تو ابتلا اور کفرانِ نعمت ہے، اگرچہ فتویٰ سے عذر کی اجازت ہے (مثلاً: رغبت اس کے کھانے کی ہے ہی نہیں)۔اصولِ اسلام راحت بخش ہیں : فرمایا کہ جس قدر غیر مسلم اقوام ہیں، سب نے اسلام کے اصول لیے ہیں، راحت اُٹھا رہے ہیں اور مسلمانوں نے چھوڑ دیے ہیں، پریشان ہیں، تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔صفائی روح کی مطلوبیت کی دلیل : حدیث شریف میں ہے: نظفوا أفنیتکم یعنی گھر سے باہر جو اس کے سامنے میدان ہے اس کو صاف رکھو، سو ظاہر ہے کہ جب مکان سے باہر کی صفائی کا اس قدر اہتمام ہے تو خود گھر کی صفائی کس قدر مطلوب ہوگی، پھر کپڑے کی اس سے زیادہ اور جسم کی اس سے زیادہ اور روح کی تو کس قدر مطلوب ہوگی۔مہمان کو بے تکلف کرنے کی تدبیر : فرمایا کہ امام شافعی ؒ سماعِ حدیث کے لیے امام مالک صاحب ؒ کے مہمان ہوئے۔ کھانے کے وقت خادم نے اطلاع کی کہ کھانا تیار ہے۔ امام مالک ؒ نے فرمایا: لے آؤ، وہ ہاتھ دُھلانے کے لیے پانی لایا اور پہلے امام شافعی ؒ کے ہاتھ دھلانے چاہے۔ امام مالک ؒ نے فرمایا کہ پہلے ہمارے ہاتھ دھلاؤ، اسی طرح کھانا رکھتے وقت فرمایا: کھانا پہلے ہمارے سامنے رکھو۔ اس کے بعد خود پہلے کھانا شروع کر دیا۔ یہ ترتیب اس وقت کے رسم وتکلف کے خلاف ہے، لیکن اس میں ایک بہت بڑے دقیقہ پر امام کی نظر گئی، اس لیے کہ مہمان کو پیش قدمی کرتے ہوئے شرم دامن گیر ہوتی ہے۔ خصوص کھانے میں ابتدا کرتا ہوں، مہمان شرماتا ہے۔ آپ نے یہ ترتیب مہمان کے بے تکلف کرنے کے لیے اختیار فرمائی۔اسلام تمام اخلاقِ حمیدہ کی جڑ ہے : فرمایا کہ کفر جڑ ہے تمام اخلاقِ رذیلہ کی اور اسلام جڑے ہے تمام اخلاق حمیدہ کی۔ اس لیے کفر کے ہوتے ہوئے اتفاق ہونا نہایت عجیب ہے اور اسلام کے ہوتے ہوئے نااتفاقی ہونا عجیب ہے، ان دونوں کا سبب کچھ عوارض ہوتے ہیں۔ہدیہ تطہیرِ قلب کا ذریعہ ہے : فرمایا کہ ہدیہ دے کر کسی عنایت کی توقع نہایت ہی منکر وقبیحہے، مجھ کو تو یہ پسند نہیں کہ ہدیہ دے کر دعا کے لیے کہا جائے، اس لیے کہ ہدیہ تو محض طیبِ قلب سے اور تطہیرِ قلب کے لیے ہوتا ہے۔مولانا قاسم صاحب کا قبولیتِ ہدیہ : فرمایا کہ مولانا قاسم صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر یہ شبہ ہو جاوے کہ یہ شخص ہم کو غریب سمجھ کر ہدیہ دے رہا ہے لینے کو جی نہیں چاہتا۔ ہم غریب ہی سہی، مگر اس کو کیا حق ہے کہ وہ غریب سمجھ کر دے۔ غرض یہ کہ مولانا رفعِ حاجت کی مصلحت کی آمیزش کو بھی نہیں پسند فرماتے تھے اور ایک یہ بھی معمول تھا کہ سفر میں ہدیہ لینا پسند نہ فرماتے تھے۔ بعض اوقات پہلے سے آمادگی نہیں ہوتی، منہ دیکھ کر خیال ہو جاتا ہے، تو طیب قلبِ سے