انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے جو محبت مع اللہ کی وجہ سے جذرِ قلب میں پیوستہ ہو جائے۔ جس کے لیے عمل بالاحکام لازم ہے اور جو تعلق بدونِ عمل کے ہو وہ محبت سے خالی ہے، پس مشاہدہ کاملہ یہ ہے کہ علماً وعملاً استحضار رہے، یعنی اس کے مقتضا پر عمل بھی ہو۔ایمانِ کامل کی شناخت : ارشاد: ایمان اور یقین کے مختلف درجے ہیں، جس درجہ کا ایمان اور یقین ہو جاتا ہے، اتنا ہی عمل میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے تو جب کسی کو حق تعالیٰ کی رؤیت ومعیت کا عمل میں استحضار نہیں ہوا تو اس درجہ میں اس کو ایمان حاصل نہیں ہے، اس کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں وہ یہ کہ ایک طبیب کے پاس دو مریض گئے اور دونوں کو اس کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ یہ شخص کامل طبیب ہے، دونوں نے اپنی نبض دکھائی اور طبیب نے دونوں کو نسخہ لکھ کر دیا، مگر ایک شخص نے تو نسخہ پر عمل کیا اور استعمال کرکے صحت یاب ہوگیا اور دوسرے نے نسخہ پر عمل نہیں کیا تو پہلے کا یقین کامل ہے، کیوں کہ اس نے اس یقین کے مقتضا پر عمل کیا ہے اور دوسرے کا ناقص ہے۔ اس یقینِ کامل کے حاصل کرنے کا طریقہ سوا اس کے کچھ نہیں کہ اس کے مقتضا پر ہمت کرکے عمل کرے، اول اول تو تعب ہوگا، پھر رفتہ رفتہ وہ حال راسخ ہو کر ملکہ بن جائے گا۔علمی استحضار کے لیے عمل بالاحکام لازم ہے : ارشاد: اگر علماً استحضار کامل ہو تو عملاً غیبت ہونا محال ہے۔ اور ملکۂ یادداشت والوں کو جو استحضار ہوتا ہے وہ محض تصور ہے، غلبۂ استحضار نہیں۔حضرت یحییٰ وحضرت عیسیٰ ؑ کا فیصلہ : ارشاد: حضرت یحییٰ ؑ پر خشیت کا بہت غلبہ تھا اور زیادہ وقت رونے میں گذرتا تھا یہاں تک کہ کہ روتے روتے رخساروں کا گوشت گل کر گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آنسوؤں میں ایک قسم کا تیزاب ہے اس لیے آپ کی والدہ روٹی کے پھائے رخساروں پر چپکا دیا کرتیں تاکہ بدنما داغ نہ معلوم ہوں، ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ اے یحییٰ! تم اتنا روتے ہو گویا تم کو خدا تعالیٰ کی رحمت کی اُمید نہیں؟ حضرتِ حق کی طرف سے فیصلہ صادر ہوا، وحی نازل ہوئی کہ اے یحییٰ! خلوت میں تو تم ایسے ہی رہو جیسے اب ہو، اور مخلوق کے سامنے ویسے رہو جیسے عیسیٰ ؑ ہیں، یعنی ہنستے اور تبسّم کرتے رہا کرو، بندوں کے سامنے زیادہ رویا نہ کرو، کہیں ہمارے بندوں کا دل نہ ٹوٹ جاوے اور مایوس نہ ہو جاویں اور حضرت عیسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ اے عیسیٰ! ہمارے بندوں کے سامنے تو تم ویسے ہی رہو جیسے اب تک ہو اور خلوت میں ویسے رہو جیسے یحییٰ ؑ ہیں۔ یعنی خلوت میں ہمارے عذاب کو یاد کرکے رویا کرو۔اتباعِ حکمت حضورﷺ کی فطرت وطبیعت تھی : ارشاد: حضورﷺ طبیعت سے بھی بعض کام کرتے تھے مگر وہ طبیعت بالکل حکمت کے موافق تھی اور خود اتباعِ حکمت آپ کی فطرت وطبیعت بن گئی تھی۔انسان کو دنیا میں بھیجنے کی ضرورت : ارشاد: ترقی قرب مقصود کے لیے محض روح کافی نہیں ورنہ ہم عالمِ ارواح ہی میں