انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عالم ہے اور ایک جاہل، تو یہ اکمل اکمل تو ہے مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے، افضل جاہل ہے یا عالم، کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عالم کے لیے افضل ہونا بھی لازم ہے، ممکن ہے اس جاہل کے قلب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ وہ علم سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو تو اپنی اکملیت کے بنا پر اپنے کو افضل سمجھنا، یہ بُرا ہے، یہی علوم ہیں جو باخبر کی صحبت میں میسر ہوتے ہیں۔صاحبِ استعداد ہونا : فرمایا کہ کتنا ہی بڑا ذی استعداد ہو بدونِ صحبت شیخِ کامل کے بصیرت نہیں ہوسکتی، ہاں بصیرت کے بعد پھر خواہ شیخ سے بڑھ جائے، یہ ممکن ہے۔خداداد صفات : فرمایا کہ بعض بندوں میں کوئی ایسی خداداد صفت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے سامنے دوسروں کے کمالات گرد ہوتے ہیں، اس لیے کسی کی کمی کو دیکھ کر اس کو ناقص اور اپنے کو کامل سمجھنا غلطی ہے، ممکن ہے اس کا نقص عارضی ہو، اسی طرح تمہارا کمال اس عارض کے ارتفاع کے بعد عکس کا ظہور ہو جائے گا تو حتمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟طریقِ مستقیم شریعت کا پُلِ صراط ہے : فرمایا کہ بعض اہلِ لطائف نے لکھا ہے کہ یہ طریقِ مستقیم شریعت جو ہے، یہی پل صراط ہے، یہی بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے، اس کی توجیہ یہ لکھی ہے کہ طریق مستقیم کی حقیقت ہے ہر چیز میں اعتدال اور اعتدال کی حقیقت ہے وسطِ حقیقی اور وسط حقیقی متجزّی نہیں ہوتا تو بال سے باریک ہوا، کیوں کہ بال عرض میں متجزی ہوسکتا ہے، نیز حقیقی وسط میں عمل مشکل بھی ہے، اس لیے تلوار سے تیز ہوا۔ پھر فرمایا کسی کامل کی جوتیاں سیدھی کرنے سے یہ دشوار راہ طے ہوسکتی ہے، بدونِ رہبرِ کامل کے اس میں قدم رکھنا خطرہ سے خالی نہیں۔صاف بات کہنا فطری امر ہے : فرمایا کہ کثرت سے غلطی یہ کرتے ہیں کہ صاف بات نہیں کہتے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کو تعلیم نہیں ہوئی اور میں کہتا ہوں کہ یہ تکلفات تعلیم ہی کی وجہ سے ہیں، مگر تعلیم فاسد، ورنہ فطری امر ہے کہ آدمی صاف بات کہہ دے۔اسرارِ طریقت عرایسِ باطنی ہیں : فرمایا کہ اسرار باطنی کے اخفا کی بڑی زبردست تاکید ہے، جیسے اپنی دلہن اغیار کو دکھلانے سے غیرت آتی ہے، اسی طرح اس میں غیرت آتی ہے، یہ اسرار عرایسِ باطنی ہیں۔انسان دوستی : فرمایا کہ انسان ایسے فکروں میں کیوں پڑے کہ کافر جہنم میں ابد الآباد کے لیے کیوں جائیں گے؟ ایسے عبث فکروں میں پڑ کر انسان دوست کی مشغولی سے رہ جاتا ہے، مسلمانوں کا تو یہ مذہب ہونا چاہیے کہ جن سے ان کی صلح ہماری بھی صلح، جن سے ان کی جنگ ہماری بھی جنگ، اس صلح وجنگ کے علل کی تفتیش کیوں کی جاتی ہے، اسی طرح ان اُمور میں بلکہ خود اپنے متعلق بھی رائے تجویز کیوں لگائی جائے ؎