انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے دل برداشتہ ہونے کا سامان فرمایا۔طبیبِ باطن کی تجویز سے صحتِ باطنی معلوم ہوتی ہے : ارشاد: طبیبِ باطن کسی مرض کو بھی لاعلاج نہیں کہتا، یوں تو اصل فنِ طب کی رو سے کوئی صحیح نہیں اسی طرح اصل فنِ تربیت کے اعتبار سے کوئی مہذب نہیں، لیکن ماہرِ فن کا حکم مقدّم ہے استدلال بالکلیات پر اور لَمْ اس کی یہ ہے کہ ہر شخص کی صحت اس کے خاص مزاج کے اعتبار سے ہے، پس جس طرح ایک ماہر طبیب کا کسی کی نبض اور قارورہ دیکھ کر تندرست بتلانا معتبر ہے۔ اسی طرح طبیبِ باطن کی تجویز کسی کے صحت باطنی کے متعلق صحیح ومعتبر سمجھی جائے۔طبِ جسمانی وروحانی کی کتابوں کا حکم : ارشاد: طب (خواہ جسمانی ہو، یا روحانی) کی کتابیں اطبا کے لیے ہیں نہ کہ مریضوں کے لیے، مریضوں کے لیے تو طبیب کا قول بھی کتاب ہے۔ مُبْتِدِیْ کے ذمہ یہ ہے کہ محض کتابوں پر عمل نہ کرے بلکہ اپنے حالات کسی مصلح کے سامنے پیش کرکے علاج پوچھے۔ البتہ اگر مصلح خود کوئی کتاب دیکھنا تجویز کر دے۔ اس وقت وہ کتاب بھی بمنزلہ مصلح کے خطاب کے ہے۔اصل مقصود توجہ الی الحق ہے : ارشاد: اصل مقصود توجہ الی الحق ہے خواہ ذکر سے ہو، خواہ تلاوت سے۔تجلی ذاتی وتجلی مثالی کی تعریف : ارشاد: تجلی ذاتی اصطلاحی لفظ ہے اس کے معنی ہیں التفات إلی الذّات من غیر لالتفات إلی الصفات والأفعال۔ بخلاف تجلی مثالی کے وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو مثالاً دیکھے۔ سلوک کا اصل علاج قدرت وہمت کا استعمال کرنا ہے: ارشاد: اگر کوئی قدرت وہمت کا استعمال ہی نہ کرے تو اس کا کیا علاج؟ اس سے تو بس یہ کہہ دے کہ اصل علاج قدرت وہمت کا استعمال کرنا ہے۔ اگر ہماری تعلیم صحیح نہ ہو اور کہیں جائیے (یعنی اس سے استغنا برتے)۔کُدُوْرَتْ کا تدارک استغفار سے چاہیے : ارشاد: ضروریات کے سبب کُدوْرَتْ کو بھی قبول کرے اور اس کے تدارک کے لیے استغفار بھی کرے، یہ عین سنت کے موافق ہے اس کی دلیل یہ ہے لیغان علی قلبي، وإني لاستغفر اللّٰہ مثلاً اگر کسی کو کسبِ معاش میں مشغولی ہو اور اس وجہ سے ذکر کا موقع کم ملے تو استغفار سے اس کا تدار کرے۔آثار انتہائے طریقِ سلوک : ارشاد: (۱) یقین کالمشاہدہ کا حاصل ہوجانا۔ (۲) اپنا واغیار کا وجود چشمِ باطن میں فنا کالعدم ہو جانا۔ (۳) بالکل یکسو ہو کر قلب کا ذکر مذکور کی طرف مائل ومتوجہ ہوجانا۔ (۴) جمیع تعلقات وجملہ حالات وخیالات کا باطن سے غائب وفنا ہوجانا۔ (۵) مدام باہوش وصاحبِ فکر رہنا۔ (۶) اپنی واغیار کی ذات بلکہ ہر دو جہاں اور جملہ ماسوا سے بالکل قلب کا آزاد وفارغ ہوجانا۔ (۷) رضا وتسلیم کا عادی وخوگر بن جانا۔ (۸) جملہ حالات وجمیع معاملات