انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مدرسہ کو باوقعت بنانا اور اس کا طریقہ : تہذیب: اس کی کوشش کرو کہ تمہارے مدرسے اہلِ دنیا کی نظر میں باوقعت ہو جائیں، جس سے قلوب میں طلبا کی وقعت ہوگی اور طلبا کی وقعت ہوگی تو اہلِ دنیا اپنے بچوں کو عالم بنائیں گے کیوں کہ وہ عزت وجاہ کے بڑے بندے ہیں جس کام میں عزت وجاہ دیکھتے ہیں اس کی طرف جلدی مائل ہوتے ہیں باوقعت بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ علما استغنا برتیں کیوں کہ علما کی عزت استغنا ہی سے ہوتی ہے عبا وقبا سے نہیں ہوتی، پس اول تو یہ چاہیے کہ علما چندہ کا کام ہی نہ کریں، اور اگر ایسا نہ کرسکیں تو کم از کم چندہ میں استغنا ہی کا طریقہ اختیار کریں، کس کی خوشامد اور للّو پتّو نہ کیا کریں۔ نیز آج کل طلبا کو کھانا لانے کے لیے امرا کے گھروں پر بھیجنا مناسب نہیں کہ اس سے طلبا عوام کی نظروں میں ذلیل وحقیر ہوتے ہیں اور طلبا کی حقارت سے علمِ دین عوام کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے۔تبلیغ بھی توجہ الی اللہ ہے مگر بواسطہ : تہذیب: محققین نے تبلیغ کو بھی توجہ الی اللہ ہی فرمایا ہے مگر بواسطہ جیسے آئینہ میں صورت محبوب دیکھی جاوے، یہ بھی محبوب ہی کی رؤیت ہے، آئینہ کی رؤیت نہیں۔توجہ الی الخلق کی مشروعیت کی حکمت : تہذیب: اصل مقصود ومطلوب بالذّات توجہ الی اللہ بلاواسطہ ہے لیکن حکمتوں کی وجہ سے توجہ بواسطہ یعنی توجہ الی الخلق بھی شروع کی گئی۔ تاکہ دوسروں کو بھی ایسا بنایا جائے کہ وہ توجہ الی اللہ بلا واسطہ کے اہل ہو جائیں۔ تہذیب: عدمِ توقع نفع یا خوف لحوقِ ضرر کے وقت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اکثر صوفیہ جو عام لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا خطاب نہیں کرتے اور صرف ایسے شخص کے خاص خطاب پر اکتفا کرتے ہیں جو اپنے کو اِصلاح کی غرض سے ان کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ان کا یہی عذر ہے کہ وہ زمانہ کا رنگ دیکھ کر نفع سے نا اُمید ہیں تو اس باب میں ان پر ملامت نہ کی جائے گی، وہ اپنے اس فعل میں بھی سنت کے متّبع ہیں۔بابِ چہارم ارشادات لیغان علی قلبي کا مطلب : ارشاد: حدیث میں جو ہے: لیغان علی قلبي، وہ ’’غین‘‘ یہی توجہ الی الخلق للارشاد ہے کہ وہ عین توجہ الی الخلق بواسطہ مراٰۃ الخلق ہے کہ عاشق بے صبرئے طبعی سے اس کو حجاب سمجھتا ہے۔