انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۲) بدونِ اجازتِ مشایخ شیخ نہ بنے : اگر کوئی از خود دیانتاً اپنے کو مشیخت کا اہل سمجھتا ہو، تو گو شرعاً اس صورت میں شیخ سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، مگر اسلم یہی ہے کہ بدون اجازت مشایخ کے ایسا نہ کرے، تاکہ مشایخ کے دل میں کدورت پیدا نہ ہو اور ان کے دل میں اس کے مدعی ہونے کا خیال نہ آوے اور اس طریق میں اسبابِ تکدر شیخ سے احتراز بہت زیادہ ضروری ہے کہ استقامت اور تمکینِ کامل رضائے شیخ ہی سے حاصل ہوتی ہے، تکدر شیخ سے گو اُخروی ضرر نہ ہو، مگر دنیوی ضرر یہ ہوتا ہے کہ جمعیتِ قلب فوت ہو جاتی ہے اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے، جیسا کہ ابن منصور کو یہ سب کچھ پیش آیا: أللہم إني أسألک رضاک ورضا أولیاء ک، وأعوذبک من سخطک وسخط أولیاء ک۔(۳) کثرتِ ریاضت اور شدّتِ مجاہدات : کی وجہ سے حسین ابن منصور حلّاج کی گدڑی میں بہت بڑی بڑی جوئیں ہوگئیں تھیں اور ان کو اپنے شغل سے اتنی فرصت نہ تھی کہ کپڑوں کو صاف کریں یا جوئیں ماریں۔(۴) قصداً دھوپ میں ذکر وشغل خلافِ سنت ہے : اگر قصداً ایسا کیا جاوے کہ سایہ کو چھوڑ کر دھوپ میں ذکر وشغل کے لیے جائے تو واقعی مذموم وخلافِ سنت ہے اور قصداً ایسا نہ کیا جائے، بلکہ ذکر وشغل سایہ میں شروع کیا ہو، پھر دھوپ آگئی ہو، مگر ذکر یا مذکور کے ساتھ غایتِ دل بستگی کی وجہ سے دھوپ کی خبر نہ ہوئی تو یہ حالت نہ مذموم ہے، نہ خلاف سنت، مگر محققین کے نزدیک کیفیات کا اتنا اہتمامِ شدید اور نفس پر اتنا تشدّد محمود نہیں من شاق شاق اللّٰہ علیہ حدیث ہے۔ (۵) سب سے بڑی کرامت ولی کی یہ ہے کہ شدائد ومصائب میں بھی محبتِ الٰہی پر قایم رہے۔(۶) عارف کی تعریف بقول امام قشیری : بقول قشیری معرفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسما وصفات کے ساتھ پہچانے۔ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص وصدق اختیار کرے، اخلاق ریہ اور آفاتِ باطنہ سے پاک ہو جاوے، اللہ کے دروازہ پر جما رہے اور دل کو ہمیشہ اس کی طرف لگائے رکھے، پھر اللہ تعالیٰ بھی اچھی طرح اس کی طرف متوجہ ہوجائیں اور تمام گناہ چھوڑ کر اللہ کے لیے صادق ومخلص بن جاوے اور خواطر نفسانی منقطع ہو جاویں، اس کا دل کسی ایسے خاطر کی طرف مائل نہ ہو جو مخلوق کی طرف داعی ہے۔ جب یہ مخلوق سے اجنبی اور آفاتِ نفس سے بَری اور مخلوق پر نظر کرنے سے پاک ہو جاوے، اس کا باطن ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے مناجات میں لگا رہے، ہر لحظہ اسی کی طرف رجوع کرتا رہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ سزاوار ہے کہ اسرار بطور الہام کے منکشف ہوتے رہیں جو تقدیر کی گردشوں میں جاری وساری ہیں، اس وقت اس کو عارف اور اس کی حالت کو معرفت کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص نہ غیر اللہ پر نفع