انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوں کہ اس سے حق تعالیٰ کے ساتھ محبت کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور محبت ہی اقرب طریق ہے، اسی لیے مجھ کو بڑا اہتمام رہتا ہے کہ طالبین کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی جاوے۔جس کے سر پر اللہ ہو اُس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے : ایک صاحب سے جو وساوس سے سخت پریشان تھے، مفصل مضامین تسلی بیان کرکے فرمایا کہ میاں! بھلا جس کے سر پر اللہ ہو پھر اس کا کیا فکر، شیطان اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے: دشمن اگر قوی ست نگہبان قوی تر است خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ} [النحل: ۹۹]۔کارِ خود کُن کارِ بیگانہ مکن : ایک مخلص دیندار نے مدرسہ دیوبند کے موجودہ فتنہ وفساد کے سلسلہ میں بعض علما وممبرانِ مدرسہ کے خلاف بدظنی کے وساوس پیدا ہونے کی بہت طویل داستان لکھی کہ چوں کہ ان سب حضرات سے بوجہ خاص دیوبندی خیال اور سلسلہ امدادیہ میں داخل ہونے کے پختہ عقیدت مندی ہے، اس لیے کسی صاحب کی طرف سے بھی بدگمانی کا خیال نہیں ہوسکتا اور گویہ سیہ کار اس قابل کہاں جو بزرگانِ دین کی رائے اور مصلحت میں دخل دے سکے، لیکن میرا ناقص خیال جس طرف یقین کے ساتھ جھکتا ہے اس طرف سے ہٹنا دشوار ہو جاتا ہے، لہٰذا مجبوری ہے اور سخت خلجان میں ہوں، احقر کا اطمینان فرمایا جاوے؟ حضرت والا نے اس کا حسبِ ذیل مختصر مگر نہایت تسلی بخش اور جامع مانع جواب ارقام فرمایا جو یہ ہے: کہ آپ نے اپنے دین کی درستی کے لیے بہت محنت کی، ان شائاللہ اس کا اجر ملے گا، چوں کہ ہر مریض کے لیے جدا نسخہ نافع ہوتا ہے، اس لیے جو نسخہ آپ کے لیے نافع ہے لکھتا ہوں، وہ یہ ہے ع کارِ خود کن کارِ بیگانہ مکن زبان وقلم وقلب سے سکوت رکھیں، پریشانی پر صبر کریں، نہ کسی کے معتقد رہیں، نہ کسی سے بداعتقاد، کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ایذا دہ ہیں، قیامت میں اس کی پوچھ گچھ بھی آپ سے نہ ہوگی۔ والسلام فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اخیر زمانہ میں دین کا سنبھالنا ایسا امشکل ہوگا جیسا چنگاری کو ہاتھ میں پکڑنا۔ اس زمانہ میں اگر کوئی ایک عمل نیک کرے گا تو اس کو پچاس عالموں کا ثواب ملے گا۔ حضراتِ صحابہؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ!: أمنا أو منہم، یعنی ہم میں کے پچاس یا ان میں کے پچاس۔ ارشاد فرمایا: منکم، یعنی تم میں کے پچاس۔ پھر فرمایا: اسی لیے تو میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی ایک نیک کام کرے تو اس کو پچاس ابوبکرؓ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ ایک طالب اصلاح نے کشاکشِ نفس کی شکایت کی تو نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا کہ جب دو پہلوانوں میں کُشتی ہوتی ہے