انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھنے لگے، اس کا علاج یہ سمجھنا ہے کہ تکبر کی وجہ سے بڑے بڑے عابدوں کے قدم توڑ دیے گئے ہیں کہ منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے، شیطان اور بلعم باعور کی حکایت اس کی نظیر ہے۔ تواضع مفرط یہ ہے کہ اس حد تک تواضع کرے کہ اپنے اعمال صالحہ کی بے قدری کرنے لگے: مثلاً: اس طرح کہ اگرچہ ہم نماز پڑھتے ہیں مگر اس میں خشوع تو ہے نہیں، ذکر کرتے ہیں مگر انوار تو بالکل نہیں، گویا در پردہ خدا کی شکایت کررہے ہیں، علاج اس کا یہ ہے کہ اللہ! آپ کا شکر ہے کہ آپ نے ہم کو ذکر ونماز کی توفیق دی ورنہ ہماری کیا مجال تھی جو آپ کی بندگی کرلیتے۔ واللّٰہ لولا اللّٰہ ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلیناکبر واستغنا کا فرق : تہذیب: کبر اور استغنا میں فرق یہ ہے کہ کبر کی تعریف اگر صادق آئے تو کبر ہے ورنہ استغنا اور کبر یہ ہے کہ اپنے کو کسی کمال میں دوسرے سے بڑا سمجھے اور اس کے ساتھ اس کو حقیر سمجھے۔خود رائی کا علاجِ کامل : تہذیب: ابتدا میں خود رائی کا علاج اسی میں منحصر ہے کہ (۱) ہر وقت اہتمام اور مراقبہ رہے کہ اس ذمیمہ کا قرب وقوع تو نہیں ہوا، (۲) جب محسوس ہو اس کے مقتضی کی عملاً مخالفت کی جائے۔ (۳) اگر پھر بھی وقوع ہوجائے نفس کو کچھ مناسب سزا دی جائے خواہ بدنی ہو یا مالی ، مثلاً: یہ خیال رکھا کہ کسی امر میں اپنی رائے پر عمل کرنے کا عزم تو نہیں ہوا جب معلوم ہوا کہ اس رائے پر عمل نہ کیا اگر غلطی سے پھر بھی ہوگیا دس رکعت نفل جرمانے کی ادا کرے یا دو آنہ پیسے خیرات کرے۔ مثلاً۔تکبر اختیاری ہے اور غیر اختیاری کا ترک بھی اختیاری ہے : تہذیب: اپنے آپ کو کسی سے بڑا سمجھنا باطناً یا ظاہراً اس طرح کہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھے یہ تکبر ہے، بس تکبر اختیاری ہے اور اختیاری کا ترک بھی اختیاری ہوتاہے، اور یہی علاج ہے۔ یہ تفاوت ضرور ہے کہ اوّل اوّل ترک اور مقاومت میں تکلف ہوتاہے پھر تکرار اور مزاولت سے مقاومت اور مدافعت سہل ہوجاتی ہے، اس لیے اصطلاح میں اسی اخیر درجہ کا نام علاج ہے یعنی جس سے عمل میں تکلف نہ ہو۔بلا اختیار اپنے کو بڑا سمجھنا مذموم نہیں لیکن بقصد ایسا سمجھنا کبر ہے : تہذیب: کسی کمال میں اپنے کو دوسرے سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ اس کو حقیر وذلیل سمجھے، یہ سمجھنا اگر غیر اختیاری ہے تو اس پر ملامت نہیں بشرطیکہ اس کے مقتضا پر عمل نہ ہو، یعنی زبان سے اپنی تفضیل دوسرے کی تنقیص نہ کرے، دوسرے کے ساتھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے اور اگر قصداً ایسا سمجھتا ہے یا سمجھتا تو بلا قصد ہے مگر اس کے مقتضائے مذکور پر بقصد عمل کرتاہے تو مرتکب کبر کا اور مستحقِ ملامت اور