انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں حکام کو ناراض کرنا {لَا تَلْقُوْا بِإِیْدِیْکُمْ إِلٰی التَھْلِکَۃُ} [البقرۃ: ۱۹۵] میں داخل ہے۔بچوں پر اگر زیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کی تدبیر : ارشاد: اگر بچوں پر زیادتی ہو جاوے تو اس کی تلافی کی یہ تدبیر ہے کہ سزا کے بعد بچوں کے ساتھ شفقت کرو اور جس پر زیادتی کی ہے اس کے ساتھ احسان کرو یہاں تک کہ وہ خوش ہو جاوے۔ نیز سزا کے بعد بچوں کو خوش کرنے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ان کے دل میں معلم سے بغض وعداوت نہ پیدا ہو جاوے جو علم سے محرومی کا سبب ہے۔خدمتِ طِفلاں کا حکم : ارشاد: بچوں سے ایسی خدمت لینا جائز نہیں جس میں والدین کی رضا نہ ہو اور اگر رضا بھی ہو تو جو خدمت بچوں کی طاقت سے باہر ہو یا خدمت خلافِ سنت ہو(جیسے تیجے کے دانے پڑھوانا)وہ بھی جائز نہیں، میانجیوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔بدونِ صفائی کے کسی چیز سے منتفع نہ ہو: ارشاد: اگر قلی سے کام لینے سے پہلے صاف کہہ دیا جائے کہ ہم سرکاری نرخ نامہ کے موافق تم کو کرایہ یا مزدوری دیں گے اس سے زیادہ نہ دیں گے، اگر خوشی ہو قبول کرلو، اگر اس پر بھی وہ سامان اٹھالے تو پھر سرکاری نرخ کے مطابق کرایہ دینا جائز ہے، غرض یہ کہ بدونِ صفائی کے کسی چیز سے منتفع نہ ہو۔حاکم تنہا اپنی احتیاط سے نجات نہیں پاسکتا : ارشاد: حاکم تنہا اپنی احتیاط سے نجات نہیں پاسکتا، بلکہ اس کا انتظام بھی اس کے ذمہ ہے کہ متعلقین بھی ظلم نہ کرنے پائیں، جس کی صورت یہ ہے کہ عام طور سے اشتہار دیدے کہ میرے یہاں رشوت کا بالکل کام نہیں، اس لیے اگر میرے عملہ میں سے کوئی شخص کسی سے رشوت مانگے تو ہرگز نہ دے، بلکہ ہم سے اس کی اطلاع کرے، پھر اطلاع کے بعد جس نے ایسی حرکت کی ہو اس سے رقم واپس کرائے اور کافی سزا دے، نیز جو شخص حاکم سے ملنے آئے اس کو خود جاکر دروازے سے باہر تک پہنچائے، تاکہ نکلتے ہوئے کوئی چپراسی وغیرہ اس کو تنگ نہ کرے۔ نیز حکام کو یہ بھی چاہیے کہ لوگوں کے تعلقات براہِ راست اپنے سے رکھیں کسی شخص کو واسطہ نہ بنائیں، کیوں کہ یہ واسطے بہت ستم ڈھاتے ہیں، اگر کہو صاحب یہ تو بڑا مشکل ہے تو حضرت حکومت کرنا آسان نہیں، یہ منہ کا نوالہ نہیں، ہر وقت جہنم کے کنارہ پر ہے۔حضرت عمر ؓ کا دورۂ شام : ارشاد: حضرت عمر ؓ نے جب شام کا دورہ کیا ہے تو آپ کے ساتھ کل یہ سامان تھا، ایک غلام تھا اور ایک اونٹ اسی پر آقا اور غلام دونوں باری باری سوار ہوتے تھے اور کھانے کے لیے ایک تھیلا ستّو کا تھا اور ایک کھجوروں کا۔ بس سارا راستہ اسی کو گھول کر پی لیا، دو چار کھجوریں کھالیں، ساتھ میں نہ خیمہ تھا نہ گھوڑے تھے نہ لاؤ لشکر تھا، پھر راستہ میں جہاں ٹھہرتے تھے وہاں استقبال کرنے کی ممانعت تھی، نہ کسی کاہدیہ لیتے نہ کسی گاؤں سے دودھ اور جنس