انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں، ناواقف خوش ہوتاہے کہ تاریکی گئی پھر دفعتاً وہ نور زائل ہوجاتاہے اور تاریکی چھاجاتی ہے مگر تھوڑی دیر میں پھر دوسرا نور آتاہے، جس کو صبح صادق کہتے ہیں وہ فاتح بلکہ ترقی پذیر ہوتاہے۔طبعی امور قابلِ التفات نہیں : تحقیق: طبعی امور کے نہ ابقا کا اہتمام چاہیے نہ ازالہ کی تدبیر، بس التفات ہی نہ کیا جائے۔امور غیر اختیاری کا حکم : تحقیق: جو امر بندے کے اختیار میں نہ ہو اس کا ہر پہلو خیر ہے، نہ اس کے درپے ہو نہ اس کو علامت مقبولیت یا مرد ودیت کی سمجھے۔مسائل میں خواب کا حکم : تحقیق: خواب پر اعتماد کرنا مسائل میں جائز نہیں۔اعمالِ صالحہ کے فوت کا غم : سالک کو بہت نہ چاہیے تحقیق: اعمالِ صالحہ کے فوت ہونے کا عوام تو جس قدر چاہیں قلق کریں ان کوتو مفید ہے اور سالکین اس کا بھی زیادہ غم نہ کریں بلکہ تھوڑی دیر تک رنج کرلیں، پھر جی بھر کے توبہ کرلیں اور اپنے کام میںلگیں، ماضی کی فکر میں نہ پڑیں کہ ہائے! یہ کام کیوں فوت ہوا؟ یہ خطا کیوں ہوئی؟ ہر وقت اس کا شغل رکھنا سالک کو مضر ہے۔ کیوں کہ یہ فکر تعلق مع اللہ میں حجاب ہوجاتاہے اور اس میں راز یہ ہے کہ تعلق مع اللہ بڑھتا ہے نشاطِ قلب سے اور یہ قلق نشاط کو کم کردیتاہے۔ لیکن تھوڑی دیر تک قلق کرنا چاہیے اور خوب رونا دھونا چاہیے، تاکہ نفس کو کوتاہی کی سزا تو ملے، پھر اچھی طرح استغفار کرکے اس سے التفات قطع کرے۔ آج کل زیادہ قلق کرنے میں ایک اور بھی نقصان ہے وہ یہ کہ قلوب اس وقت بے حد ضعیف ہیں زیادہ قلق سے ان کا ضعف بڑھ جاتاہے، جس سے بعض اوقات تعطل کی نوبت آجاتی ہے۔عدمِ مطلوبیت ترقی غم : تحقیق: عارف قصداً جلبِ غم نہیں کرتا، بلا قصدکے اگر غم پہنچ جائے تو وہ اس کو لذائذ سے بڑھ کر قبول کرتاہے، کیوں کہ نصوص واشارات نصوص سے سمجھتے ہیں کہ غم بڑھانا یا طلب کرنا شرعاً مطلوب نہیں، چناںچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز} [البقرۃ: ۱۸۵] حدیث میں ہے کہ من شاق شاق اللّٰہ علیہ،نیز اللہ تعالیٰ نے {الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌلا} [البقرۃ: ۱۵۶] میں تقلیلِ غم وتسہیلِ حزن کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے، معلوم ہوا کہ ان کو یہ مطلوب نہیں کہ غم بڑھایاجائے، بلکہ اس کا کم کرنا مطلوب ہے۔رنج کی دو قسمیں اور ان کا حکم : تحقیق: رنج کی دو قسمیں ہیں: ایک رنج طبعی ایک رنج عقلی۔ سو رنج طبعی منقصِ ثواب نہیں بلکہ مکمل ثواب ہے، چناںچہ اولاد کے مرنے پر جو رنج طبعی ہوتاہے اس پر ثواب کا وعدہ ہے، ہاں! عقلی رنج منقصِ ثواب ہے، سو عشاق کو عقلی رنج نہیں ہوا کرتا۔ عشق کے آگے عقل سے جاری کیا چل سکتی ہے: