انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے راضی ہو کر مجھے کچھ دیدے۔ دیکھئے! اس نے کتنے بعید احتمالات اور امکانات نکالے۔ ۱۶۔والی ٔکابل عبد الرحمن خاں کاعدل : فرمایا کہ میرے پیر بھائی محمد خاں صاحب خورجہ والے ایک واقعہ امیر عبد الرحمن خاں والی کابل کا بیان کرتے تھے کہ ان کی بیوی کے ہاتھ سے ایک قتل ہو۔ گیا ایک ماما کو پستول سے مار ڈالا۔ امیر عبد الرحمن خاں سے ماما کے ورثہ نے فریاد کی۔ حکم فرمایا کہ قاضی شرع کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا جاوے اور بعد تحقیقِ شرعی کے جو حکم ہو اس پر عمل کیا جاوے۔ چناں چہ وہاں دعویٰ دائر ہوا۔ قاضی نے کہلا بھیجا کہ مجرم کی حراست کی ضرورت ہے، مگر شاہی محل کا معاملہ ہے وہاں تک رسائی کیسے ہوسکتی ہے۔ فوراً فوج کو حکم کیا کہ قاضی صاحب کے ماتحت کام کریں، باضابطہ محل سے گرفتاری ہوئی اور بیانات لیے گئے، مقدمہ شروع ہو گیا امیر صاحب کے صاحب زادے امیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا کہ والدہ کے متعلق کیا ہوگا؟ فرمایا کہ بیٹا میں اس میں مجبور ہوں جو حکم شرعی ہوگا وہ ہوگا اور یہ بھی فرمایا کہ تمھاری تو ماں ہے، اس لیے تمھیں اس کا خیال ہے اور میری بیوی ہے، اس لیے مجھ کو بھی خیال ہے، مگر حکم شرعی کے سامنے چوں وچرا کی کیا گنجالش ہے اور تعجب ہے کہ تم کو اپنی بڑھیا ماں کا تو خیال ہے اور بوڑھے باپ کا خیال نہیں کہ رعایت کرنے سے میدان محشر میں خدا کے سامنے گھسٹا گھسٹا پھرے گا۔ غرض مقدمہ ہوا اور قاتلہ کے اقرار سے قتل ثابت ہو گیا۔ قاضی شرع نے حکم قصاص کا صادر کردیا۔ صاحب زادوں نے امیر صاحب سے عرض کیا کہ اگر مقتول کے ورثا کو کچھ دے کر راضی کرلیں اور وہ اپنا حق معاف کردیں تو اس میں تو کوئی حرج نہیں۔ فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، شریعت میں اس کو دِیَت کہتے ہیں، مگر یہ شرط ہے کہ وہ طیبِ خاطر سے اس پر رضا مند ہوں۔ کوئی حکومت کا اثر یا دباؤ ان پر نہ ڈالا جائے۔ غرض کہ کوشش کر کے ان کو راضی کیا انھوں نے بہ خوشی معاف کردیا، تب بیگم صاحبہ کی جان بچی۔ یہ ہے عدل، ایسے شحص کو حکومت کرنا جائز ہے اور اگر بادشاہ ہو کر اس میںعدل نہ ہو بلکہ ظلم ہو، بے حد قبیح ہے۔ ۱۷۔والی ٔکابُل عبد الرحمن کی فراست : فرمایا کہ وہی محمد خاں راوی ہیں (چند روز امیر صاحب کے مہمان بھی رہے ہیں) کہتے تھے کہ میں نے ایک شب میں خلوت میں فلاحِ ملک کے متعلق کچھ اصلاح یاد داشت بطور نوٹ کے لکھی تھیں اس خیال سے کہ صبح دربار میں امیر صاحب کو مشورہ دوں گا کہ ان چیزوں کی ملک میں ضرورت ہے، وہ یاد داشت جیب میں رکھ کر امیر صاحب کے دربار میں گیا۔ موقع کا منتظر رہا کہ موقع ملے تو وہ اصلاحی نوٹ پیش کر دوں کہ وقعتا خود بولے کہ بعض احباب ملک کی اصلاحات کے متعلق یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں ملک کی ترقی کے لیے مفید ہیں اور اس