انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں ہوتا، گو کھیتی ساری برباد ہوجائے، مگر اسی مصیبت سے اجرِ صبر بڑھ جائے گا اور آخرت میں جو ثواب اس کے بدلہ میں ملے گا وہ اس کھیتی سے لاکھ درجہ افضل ہوگا، کیوںکہ اجرِ آخرت کی شان یہ ہے: نیم جان بستاند وصد جان دبد آں چہ درو ہمت نیاید آں دہد خود کہ یار بد ایں چنیں بازار را بیک بیک گل می خری گلزار راکلماتِ تعزیت : تہذیب: حضورﷺ کے وصال میں حضرت خضر ؑ نے صحابہؓ کو اس طرح تسلی فرمائی تھی: إنَّ فِيْ اللّٰہِ عَزَائً مِنْ کُلِّ مُصِیْبَۃٍ، وَخَلَفًا مِنْ کُلِّ فَائِتٍ، فَبِالِلّٰہِ فَثِقُوْا وَإِیَّاہُ فَارْجُوْ؛ فَإِنَّمَا الْمَحْرُوْمُ مِنْ حُرِمَ الثَّوَابَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہر مصیبت سے تسلی ہے اور ہر فوت ہونے والے کا عوض ہے، پس اللہ پر بھروسا رکھو اور اسی سے امید رکھو، کیوں کہ پورا محروم تو وہی ہے جو ثواب سے محروم رہے اور مسلمان تو کسی مصیبت میں ثواب سے محروم نہیں رہتا۔تحصیلِ صبر کا طریقہ مصائب کی فضائل اور حکمتوں پر غورکرناہے : تہذیب: تکوینیاتِ ناگوار کا منشا بھی حق تعالیٰ کی محبت ہی ہے مگر اس میں ماں کی محبت کا رنگ نہیں ہے بلکہ باپ کی محبت کا رنگ ہے، باپ کی محبت یہی ہے کہ جب لڑکا شرارت کرے تو چار ادھر لگائے اور چار ادھر۔ حضرات! ان مصائب سے حق تعالیٰ ہم کو مہذب بنانا چاہتے ہیں، تاکہ گناہوں کا کفارہ ہوجائے، ہم لوگ اپنے اعمالِ بد سے اپنے آپ کو تباہ کرنے میں کسر نہیں کرتے، حق تعالیٰ ان سزاؤں سے ہم کو راستہ پر لگادیتے ہیں اور دماغ درست کردیتے ہیں۔ پھر حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی مصائب سے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہوجاتاہے۔ نیز ایک روایت میں ہے: بعض دفعہ حق تعالیٰ اپنے بندہ کو خاص درجہ اور مرتبہ عطا فرمانا چاہتاہے جس کو وہ اپنے عمل سے حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مصیبت یا مرض میں مبتلا کردیتے ہیں جس سے اس درجہ عالیہ کو پالیتاہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے میں اہلِ مصائب کو ثوابِ کثیر ملتاہے تو دیکھ کر اہلِ نعم کہیں گے: یا لیت جلودنا قرضت بالمقاریض فنعطی مثل ما أوتوا۔ یعنی کاش! ہماری کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں، تاکہ آج ہم کو بھی یہ درجات ملتے۔ اب بتلائیے! یہ مصائب متاعب تکوینیہ محبتِ حق سے ناشی ہیں یا نہیں، حق تعالیٰ کے امتحانات وابتلاء ات کو