انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(۳۲) صحابہؓ کو مجاہدات کی حاجت نہ تھی : فرمایا کہ صحابہؓ کو مجاہدات کی حاجت نہ تھی، کیوں کہ اول تو صحابہؓ کی استعداد قوی پھر حضورﷺ کا فیضِ صحبت، اسی وجہ سے صحابہؓ کی وہ شان تھی جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎ آہن کہ بپارس اشنا شد فی الحال بصورت طلا شد جیسے حضرات صحابہؓ کو بوجہ قوتِ استعداد اور فیضِ صحبت حضرت رسول اکرمﷺ نفس کشی کے لیے مجاہداتِ شاقہ کی ضرورت (جیسا کہ بزرگانِ سلف سے منقول ہیں) نہ تھی، اسی طرح بوجہ قوتِ تحمل ایسے مجاہدات کی ضرورت اب اس زمانہ میں نہیں، کیوں کہ ایسے مجاہدات کی وجہ سے صحت خراب ہوکر جو کچھ اعمال اس سے پہلے ہوجاتے تھے وہ بھی ترک ہوجاتے ہیں، حالاں کہ اصل چیز اعمال ہی ہیں، مجاہدات وریاضات تو ان کی تکمیل کا ذریعہ ہیں اور حق تعالیٰ کا فضل اس پر موقوف نہیں کہ اس زمانہ میں بھی بزرگانِ سلف کی طرح شدید مجاہدے کیے جائیں، بلکہ اس زمانہ میں حق تعالیٰ کا فضل بقدر اپنے امکان کوشش کرنے سے متوجہ ہو جاتا ہے، اس لیے اب جس کو جتنا امکان ہو اتنا ہی مجاہدہ اس کے لیے کافی ہے، البتہ اتباعِ شریعت وہ ہر شخص کے لیے ہر زمانہ میں یکساں ضروری ہے، بغیر اس کے وصول الی اللہ نہیں ہوسکتا۔(۳۳) ثمرۂ آجلہ وثمرہ عاجلہ کی حقیقت ومثال : فرمایا کہ ذکر کے دو ثمرے ہیں: ایک ثمرہ آجلہ، دوسرے ثمرہ عاجلہ۔ ثمرۂ آجلہ تو رضائے حق ہے اور وہ رضائے حق ذکر سے حاصل دنیا ہی میں ہو جاتی ہے، مگر ظہور اس ثمرہ کا آخرت میں ہوگا اور ثمرہ عاجلہ احوال وکیفیات ہیں جیسے ذوق شوق ویکسوئی وغیرہ تو ذکر سے اس کا حاصل ہونا غیر یقینی ہے اور جس ثمرہ کے مرتب کرنے کا حق تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے وہ ثمرہ صرف ثمرہ آجلہ یعنی رضائے حق ہے، باقی رہے ثمرات عاجلہ سو ان کا نہ حق تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے، نہ ان کا حاصل ہونا یقینی ہے، پھر اس کے حاصل نہ ہونے پر تنگدل ہونا کیسا، اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ جیسے کوئی شخص کسی کی دعوت کرے کہ تمہاری فلاں دن دعوت ہے اور جب وہ دن دعوت کا آئے اور یہ مہمان اس کے پاس جائے تو وہ اس کی بہت خاطر کرے اور خوب اچھے اچھے کھانے کھلائے اور جب یہ کھانا کھا چکے اور میزبان کے پاس سے رخصت ہونے لگے تو بجائے اس کے کہ اپنے میزبان کا شکریہ ادا کرے، الٹی شکایت کرنے لگے کہ آپ نے مجھے کھانا تو کھلایا مگر کچھ نقد تو دیا نہیں، تو ظاہر ہے کہ ہر شخص اس مہمان ہی کو ملامت کرے