انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
متعلق کچھ وساوس آویں، مگر ان اُمور مذکورہ بالا کا پتہ تو رہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کو بزرگوں کا ادب حاصل ہو جائے گا، پھر ارشاد فرمایا کہ یہ وسوسے بھی اکثر اس وقت تک آتے ہیں کہ جب تک کمالِ فنا حاصل نہیں ہوتا۔ جب کمال فنا حاصل ہو جاتا ہے تو وسوسے بھی پیدا نہیں ہوتے۔ (۴۰) فرمایا کہ تربیت کی حقیقت تحقیق نہیں بلکہ علاج ہے، لہٰذا تربیت کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے جو تحقیق کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی اگر کوئی بات فی نفسہٖ جائز ہو لیکن اگر ہم اس بات کی مخاطب کو اجازت دیتے ہیں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس اجازت پر عمل کرنے سے وہ حدود سے نکل جائے گا اور اس کے اخلاق خراب ہوں گے اور اس کو اپنے مرضِ باطن سے جس کا وہ علاج ہم سے کرا رہا ہے، شفا نصیب نہ ہوگی تو ہم کو چاہیے کہ ایسی بات کی اس شخص کو بھی اجازت نہ دیں ورنہ تربیت نہیں ہوسکتی مثلاً: طالب تکبر کا علاج کرا رہا ہے تو شیخ کو مناسب نہیں کہ التکبر علی المتکبر صدقۃ کے مقتضا پر عمل کرنے کی اجازت دے۔(۴۱) شیخ کی اتباع ضروری ہے : فرمایا کہ شیخ اپنے مرید کو جب تک کسی خلاف شرع بات کا حکم نہ دے اس وقت تک اس کو اس حکم میں شیخ کا اتباع کرنا چاہیے، پھر فرمایا کہ خلافِ شرع سے مراد حرام اور مکروہِ تحریمی ہے، باقی رہا خلافِ اولیٰ سو وہ مراد نہیں، یعنی اگر شیخ اپنے مرید کو کسی خلافِ اولیٰ کا حکم دے تو مرید کو چاہیے کہ اس حکم میں اپنے شیخ کی مخالفت نہ کرے، بلکہ اس حکم کو بجا لائے گو وہ خلافِ اولیٰ ہی ہو۔ (۴۲) فرمایا کہ جذبات پر مواخذہ نہ ہوگا بلکہ اعمال اور افعال پر ہوگا، مگر باوجود اس کے پھر جوان جذبات کی اصلاح کی ضرورت ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح سے نفس کی مقاومت اور مقابلہ آسان ہوجاتا ہے جس سے رذائلِ نفس کے مقتضا کی مخالفت بآسانی ہوسکتی ہے اور جذبات کی اصلاح نہیں کی جاتی تو پھر نفس کی مقاومت دشوار ہو جاتی ہے، بلکہ نفس سے مغلوب ہو جاتا ہے اور ان رذائل کے مقتضا پر اکثر عمل ہو جاتا ہے۔(۴۳) ایک دہریہ کے خط کا جواب : میرے نزدیک تمہاری فلاح کی ابتدا دعا سے ہونا چاہیے، یعنی سب تدابیر سے پہلے تم یہ عمل شروع کرو کہ دعا کیا کرو کہ اے اللہ! مجھے صراطِ مستقیم پر قایم فرما۔ رہا یہ شبہ کہ جب تم خدا تعالیٰ ہی کے قائل نہیں تو پھر دعا کس سے کی جاوے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ تم خدا تعالیٰ کے قائل نہیں، مگر تمہارے پاس حق تعالیٰ کے نفی کی بھی کوئی دلیل نہیں، جب تمہارے پاس نہ وجود کی دلیل ہے نہ نفی کی تو تم حق تعالیٰ کے وجود کے متحمل اور ممکن ہوئے۔ عقلاً قائل ہونا پڑے گا اور دعا کے لیے احتمال کافی ہے جس میں تمہارا نہ کوئی ضرر ہے، نہ مشقت، جب تم میرے پاس تجویز پر عمل شروع کرکے اپنی حالت سے مجھ کو مطلع کروگے تو پھر آگے مشورہ دوں گا۔