انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت والا کے مواجہہ میں تسبیح لے کر نہ بیٹھیں، یا رومال اوپر سے ڈال کر پڑھیں یا محض زبان سے پڑ ھتے رہیں۔شیخ کی مجلس میں باتیں کرنا خلافِ ادب ہے : مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرنا خلافِ آداب مجلس ہے، اس کی حضرت والا ممانعت فرماتے رہتے ہیں کہ اگر بات چیت کرنی ہو تو مجلس سے باہر جاکر کریں، اگر کسی سے بہت ہی ضروری اور مختصر مجلس ہی میں کہنے کی مجبوری ہو تو چپکے چپکے نہ کہیں، بلکہ اس طرح کہیں کہ حضرت والا بھی سُن سکیں، نہ تو سرگوشی کریں، نہ بہت پکار کر کہیں، متوسط آواز سے اور ذرا کھل کر کہیں ۔آدابِ تخاطب : حضرت والا ارشادات میں صرف اہلِ خصوصیت کو اپنا مخاطب بناتے ہیں ۔ مخاطب کو چاہیے کہ وہ خاص طور سے حضرت والا کی جانب متوجہ رہے اور جو قابلِ تحسین باتیں ہوں ان پر بُشرہ سے اور اگر موقع ہو تو زبان سے اظہار بشاشت کرے، کیوں کہ حسبِ ارشاد حضرت والا یہ آداب تخاطب میں سے ہے، ورنہ بے حس وحرکت اور ساکت وصامت بیٹھے رہنے سے خطاب کرنے والے کو یہی پتہ نہیں چلتاکہ میرا مخاطب بات کو سمجھتا بھی ہے یا نہیں اور پھر مضامین کی آمد ہی بند ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حسب ارشاد حضرت والا آداب تخاطب میں سے یہ بھی ہے کہ سُنی ہوئی بات کو بھی اس طرح سُنے کہ جیسے پہلے سے سُنی ہوئی نہیں ہے، تاکہ بات کہنے والے کا دل افسردہ نہ ہو جاوے اور جن کو مخاطبت کی اجازت بھی ہو وہ بھی بلا ضرورت نہ بولیں، زیادہ ترحضرت والا ہی کو کلام فرمانے دیں، تاکہ سب حاضرین کو جو زیادہ تر اسی غرض سے مجلس شریف میں حاضر ہوتے ہیں حضرت والا کی زبان فیض ترجمان سے مضامین نافعہ سننے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہو ۔ نیز حضرت والا کے دورانِ کلام میں دخل در معقولات نہ کریں، نہ بے جوڑ سوالات کریں نہ اس وقت کوئی اشکال پیش کریں، کہ ان سب باتوں سے کلام کا لطف جاتا رہتا ہے اور مضامین کی آمد بند ہوجاتی ہے ، اگر کسی تقریر کے متعلق ضروری بات پوچھنی ہو تو ختمِ مضمون کے بعد سلیقہ کے ساتھ پوچھیں بشرطیکہ مخاطبت کی اجازت بھی پہلے سے حاصل ہو ۔پُشت کی جانب سے خطاب : فرمایا کہ راستہ چلتے وقت پُشت کی جانب سے کسی قسم کا تخاطب نہایت بد تہذیبی ہے۔ چناں چہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت امام ابو یوسف ؒ کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر تم کو کوئی پُشت کی طرف سے خطاب کرے تو اس کا جواب مت دو، کیوں کہ اس نے تمہاری بڑی اہانت کی اور تم کو اُس نے گویا جانور سمجھا ۔ جانوروں ہی کو پُشت کی طرف سے خطاب کیا جاتا ہے ۔اخلاص کی زیادتی بھی مانعِ قبول ہدیہ ہے : فرمایا کہ اخلاص کی کمی تو ہدیہ قبول کرنے کی مانع ہوتی ہی ہے، میرے یہاں اخلاص کی زیادتی ( یعنی زیادہ جوش محبت ) بھی من جملہ موانع کے ہے، کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تو جوشِ محبت