انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں یہ امر مشترک ہے کہ اس دوسری طاعت کا اس طاعت سے قصد نہیں ہے۔ مثلاً: نماز پڑھنے سے یہ غرض نہیں کہ نماز میں یکسوئی کے ساتھ تجہیزِ جیش کریں گے۔ پس حقیقتِ اخلاص تو دونوں میں یکساں ہے، اس میں تشکیک نہیں، البتہ عوارض کے سبب ان میں مفاوت ہو گیا اور درجہ اوّل اکمل اور دوسرا درجہ اگر بلا عذر ہے تو غیر اکمل ہے اور اگر عذر سے ہے تو وہ بھی اکمل ہے، جیسے حضرت عمر ؓ کو ضرورت تھی اور اس کا معیار اجتہاد ہے، لیکن ہر حال میں اخلاص کے خلاف نہیں۔ البتہ خشوع کے خلاف ہونا نہ ہونا نظری ہے میرے ذوق میں بصورتِ عذر یہ خلافِ خشوع بھی نہیں، اگر ضروت ہو۔نماز میں قصد تعلیم کا خلافِ احتیاط ہے : سوال: اگر نماز اس غرض سے پڑھتا ہے کہ کوئی ناواقف آدمی میری اس نماز کو دیکھ کر اپنی نماز درست کرلے، ایسی طاعت کا قصد نماز میں مخلِ اخلاص ہے یا نہیں؟ تہذیب: اس میں خود نماز سے مقصود غیر نماز ہے، اس میں بظاہر خلافِ اخلاص ہونے کا شبہ ہوسکتا ہے مگر میرے ذوق میں اس میں تفصیل ہے کہ شارع کے لیے تو یہ خلاف اخلاص نہیں وہ اس صورت میں تبلیغ کے مامور ہیں۔ اور غیر شارع کے لیے مامور بہ نماز میں خلافِ احتیاط ہے اور خاص تعلیم کے لیے مستقل نماز کا حرج نہیں۔جنت اور رضائے حق کی طلب خلافِ اخلاص نہیں : تہذیب: جنت اور ثواب ورضائے حق کی طلب اخلاص کے منافی نہیں، کیوں کہ یہ غرض خود شرعاً مطلوب ہے، چناں چہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ} [المطفّفین: ۲۶] حدیث میںہے اللّٰھم إني أسألک الجنۃ وما قرّب إلیھا من قولٍ أو عملٍ۔ علاوہ اس کے جنت محلِ رضا ہے تو جب رضا مطلوب ہے تو محلِ رضا بھی مطلوب ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جنت کی طرف رغبت کرنے اور اس کی درخواست کرنے سے بھی رضائے حق حاصل ہوگی، کیوں کہ اس میں بھی ایک حکم کا امتثال ہے۔کسی فعل کے خالصاً لوجہ اللہ ہونے کی علامت اور نفسانیت وللہیت :تہذیب: کسی فعل کے خالصاً لونہ اللہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ جو بات لوجہ اللہ ہوتی ہے وہ دل آزار پیرایہ میں نہیں ہوتی، نہ سخت لہجہ میں ہوتی ہے، بلکہ ایسی شفقت اور ہمدردی کے ساتھ ہوتی ہے، جیسے باپ بیٹے کا کوئی عیب دیکھتا ہے تو اس کو آہستہ سے علیحدگی میں سمجھاتا ہے اور کسی کے سامنے گاتا نہیں پھرتا۔ اور دوسری علامت خلوص کی یہ ہے کہ یوں سمجھو کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور وہ میری جگہ ہوتے اور وہ مجھ پر اعتراض کرتے تو کیا ان کے اعتراض کو میں ٹھنڈے دل سے سنتا یا مجھے اس سے ناگواری ہوتی، خدا کو حاضر وناظر جان کر اس پر نظر کرے، اگر دل میں دوسرے کے اعتراض سے ناگواری پائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ تم میںاہلیت اور نیتِ اصلاح کچھ نہیں ہے صرف تعنُّت ہے، اور یہ جتلانا چاہتے ہو کہ ہم بھی اہلِ رائے ہیں۔ ایک علامت