انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ورنہ بغض فی اللہ ہے۔سلف کی مخالفت نہ کرے : ایک طالب نے کلام مجید کی تلاوت کی فضیلت دیکھ کر چاہا کہ سوائے تلاوت اور سب وظائف واَوراد ترک کر دوں؟ تحریر فرمایا کہ یہ بھی خبر ہے کہ کسی چیز کی طرف زیادہ کشِش اسی وقت ہوتی ہے جب دوسری چیزیں بھی ہوں ورنہ اس سے طبیعت اُکتا جاتی ہے: گر نیست غیبتے نہ دہد لذّت حضور اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ سلف نے ایسا نہیں کیا۔حصولِ نسبت کے آثارِ غیر متخلفہ : ایک سالک نے دریافت کیا کہ حصولِ نسبت کے آثارِ غیر متخلفہ نے یہ بھی لکھا کہ نظر ہٹانے کے بعد اس کی صورت ذہن میں ایک قسم کی تصویر ہو جاتی ہے، مگر بعض وقت اس صورت کو ذہن میں آتے ہی فوراً دفع کرنا یاد نہیں رہتا؟ اس پر حضرتِ والا نے تحریر فرمایا کہ یاد رکھنے کا اہتمام ضروری ہے، اگر دل سے یاد نہ رہے، ایک پرچہ پر اس کی وعید لکھ کر وہ پرچہ اپنے کلائی یا بازو پر باندھ لیا جاوے۔بدنظری کا علاج جس میں فاعل اپنے کو مجبور سمجھتا تھا : ایک طالبِ علم زیرِ تربیت نے بدنظری کی شکایت لکھ کر دعا اور علاج کی آسان صورت کی درخواست کی تھی اور یہ بھی لکھا تھا کہ باوجود نیچی نظر کر لینے کے پھر نظر اُٹھ جاتی ہے، حالاں کہ حضرتِ والا کے فرمان کے بہ موجب عذابِ دوزخ وغیرہ کو سوچتا ہوں، لیکن طبیعت کچھ ایسی مجبور ہوتی ہے جس کا رُکنا دشوار اور شاق نظر آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دل کے اندر سے کوئی پکڑ کر دل کو اُبھار رہا ہے، اس فعلِ بد سے نہایت ہی مجبور ہوگیا ہوں؟ اس کا حسبِ ذیل جواب تحریر فرمایا: حرفاً حرفاً پڑھا، غیر اختیاری مصائب پر تو اجر ملتا ہے ان کے ازالہ کی دعا بھی کرتا ہوں، لیکن مصائبِ اختیاریہ یعنی معاصی پر نہ اجر ملتا ہے اور نہ اس کے ازالہ کی دعا ہوسکتی ہے، کیوں کہ اس کا ازالہ تو عبد کا فعل ہے، البتہ توفیق کی دعا ہوسکتی ہے وہ بھی جب کہ فاعل اسباب کو جمع کرے اور اعظم اسباب قصد وہمت ہے اور اس کے متعلق جو عذر لکھا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ سوچو کہ ایسے موقع پر کہ نفس میں تقاضا شدید ہو، تمہارا کوئی بزرگ موجود ہو جو تمہاری اس نظر اُٹھانے کو دیکھ رہا ہو تو کیا اس وقت تم ایسی بے حیائی کر سکتے ہو؟ اگر کر سکتے ہو تو تم لاعلاج ہو اور اگر نہیں کرسکتے تو معلوم ہوا کہ نظر از خود نہیں اُٹھتی، نہ مجبوری ہوتی ہے، نہ رکنا شاق ہوتا ہے، نہ کوئی اُبھارتا ہے، سب کچھ تمہیں کرتے ہو، تو تم اس کے خلاف پر بھی قادر ہو، سو تمہارا یہ عذر ویسا ہی بے ہودہ عذر ہے جیسے ایک شاعر نے بکواس کی ہے ؎ بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجیے معاف