انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جاوے۔ملکاتِ رذیلہ : فرمایا کہ ملکاتِ رذیلہ پر مواخذہ نہیں کہ وہ غیر اختیاری ہیں، ہاں! افعال پر مواخذہ ہے جو اختیاری ہیں۔ بس ملکاتِ رذیلہ کے مقتضا پر عمل نہ ہونے دے، باقی اس فکر میں نہ پڑے کہ ملکاتِ رذیلہ زائل ہوجاویں، کیوںکہ وہ زائل نہیں ہوا کرتے، البتہ مجاہدات اور تکرار مخالفتِ نفس سے مضمحل ہو جاتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ جبلّی ہیں اور جبلّت بدلا نہیں کرتی۔ البتہ افعالِ جبلّی نہیں، ان پر اختیار ہے ہی، بس ان کا صدور نہ ہونے دے اور نہ اس غم میں پڑے کہ میری جبلّت ہی کیوں ایسی ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ خالق بھی ہیں اور حکیم بھی ہیں، ان کی اس میں سیکڑوں حکمتیں ہیں۔رذائلِ نفس : فرمایا کہ نفس کی ساخت ہی ایسی رکھی گئی ہے کہ رذائل سے خالی نہ ہو، چناںچہ کم وبیش رذائل سب میں موجود ہیں۔ إلا ما شاء اللّٰہ! لیکن جب تک وہ رذائل قوت سے فعل میں نہ لائے جائیں اور ان کا ظہور بذریعہ صدورِ اعمال نہ ہو، کوئی مواخذہ نہیں، جیسے دیا سلائی میں سب مادّے جل اُٹھنے اور بھڑک اُٹھنے کے موجود ہیں، لیکن اگر اس کو رگڑا نہ جائے تو چاہیے جیب میں لیے پھریے، کوئی اندیشہ نہیں۔ ہاں! اس کی ہر وقت سخت احتیاط رکھنی ضروری ہے کہ رگڑا نہ لگنے پاوے۔مراقبہ حق تعالیٰ کے حاکم وحکیم ہونے کا : فرمایا کہ اپنی طرف سے اس پر بالکل آمادہ رہا جاوے کہ اگر ساری عمر بھر خطرات سے نجات نہ ملے تب بھی کچھ پرواہ نہیں، جو کام ہم کو بتایا گیا ہے، بس وہ ہم کر رہے ہیں، اس سے زیادہ کے ہم مکلف ہی نہیں اور ہر حال میں اس امرِ واقعی اور عقیدۂ واجبہ کا استحضار رکھا جاوے کہ اللہ تعالی حاکم بھی ہیں اور حکیم بھی، حاکم ہونے کی بنا پر تو ان کو مخلوق کے اندر ہر قسم کے تصرّفات کرنے کا پورا حق اور کامل اختیار حاصل ہے، وہ اپنے بندوں کے اندر جو چاہیں تصرف فرمائیں، کسی کو مجالِ چوں وچرا نہیں اور حکیم ہونے کی بنا پر بندہ کو ان کے ہر تصرف کے متعلق اجمالاً یہ اعتقاد رکھ کر بالکل مطمئن رہنا چاہیے کہ یہ تصرف میرے حق میں سراسر حکمت ہے گو اس کی تفصیلی حکمتیں معلوم نہ ہوں۔قبض بسط سے ارفع ہے : محققین نے قبض کو بسط سے ارفع کہا ہے کہ اس سے اخلاقِ رذیلہ کا معالجہ زیادہ ہوتا ہے، تمام ذاکرین کو قریب قریب یہ حالت پیش آتی ہے، پھر اس سے نجات بھی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد اور ترقی ہوتی ہے۔ سالک اکثر جس شوق وذوق سوز وگداز کو کمال سمجھتا ہے، نہ وہ کمال ہوتا ہے اور جس خشکی اور وسوسہ کو نقصان سمجھتا ہے، نہ وہ نقصان ہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ کلیہ سمجھ لیا جاوے کہ جو افعال اختیاری ہیں ان میں اللہ ورسولﷺ کے خلاف نہ کیا جاوے تو پھر احوال خواہ