انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درجے میں ہو اور وہ وسوسہ خود بخود دفع ہوگیا اور طالب نے اس وسوسہ کے مقتضا پر عمل بھی نہیں کیا، تو ایسے وسوسہ کو شیخ سے کہنا اس طالب کے لیے مُضر نہیں، مگر بلا ضرورت مفید بھی نہیں، بلکہ اولیٰ یہی ہے کہ اس کو بالکل نیست ونابود کر دیا جاوے اور اگر اس وسوسہ سے طالب کی طبیعت میں یہ اثر ہوا کہ اُتار چڑھاؤ ہونے لگا، گویا کہ اس وسوسہ کو ایک گونہ رائے کا درجہ حاصل ہوگیا اور وہ وسوسہ اس کو ناگوار بھی نہیں ہوا اور جب تک اس وسوسہ کو دلائل سے دفع نہیں کیا گیا، وہ وسوسہ دفع بھی نہیں ہوا تو اگرچہ اس وسوسہ کے مقتضا پر عمل نہیں ہوا اور گویہ درجہ بھی وسوسہ کا غیر اختیاری ہے، نیز اس وسوسہ کے غیر اختیاری ہونے کی وجہ سے طالب پر آخرت میں مواخذہ بھی نہ ہوگا، مگر اس وسوسہ کو شیخ سے کہنا مناسب نہیں، بلکہ خلاف ادب اور موجب تکدّر شیخ ہے۔ اس کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہوکہ جب یہ ایک وسوسہ ہے اور غیر اختیاری ہے تو پھر شیخ پر طالب کے اس وسوسہ کے اظہار سے شیخ کے تکدر کی کیا وجہ؟ تو ایک بار ایک بات ہے، لہٰذا اس کو ایک مثال سے سمجھیے، وہ مثال یہ ہے مثلاً: ایک باپ نے بیٹے کو اس کی بدتمیزی پر ڈانٹا، جب باپ ڈانٹ چکا اور باپ کا غصہ فرو ہوگیا تو اس کے بعد بیٹے نے باپ سے کہا کہ ابّا جس وقت آپ مجھ کو میری بدتمیزی پر ڈانٹ رہے تھے تو میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں آپ کو قتل کر دوں، مگر وہ وسوسہ دفع ہوگیا تھا، تو گو وہ باپ جانتا ہے کہ میرے بیٹے کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ مجھ کو قتل کر دے، بلکہ صرف یہ ایک وسوسہ ہے جو اس کے دل میں آیا ہے اور غیر اختیاری ہے اور اس وسوسہ کی وجہ سے میرے بیٹے کو کچھ گناہ بھی نہ ہوگا، مگر باوجود ان سب باتوں کے ذرا سوچیے اور غور کیجیے کہ کیا اس باپ کو اس سے ناگواری نہ ہوگی؟ ضرور ناگواری ہوگی اور باپ کو یہ خیال ہوگا کہ یہ کمبخت تو خطرناک ہے، ساری عمر اس کی صورت نہ دیکھنی چاہیے، تو جب اس باپ کو بیٹے کی یہ بات سُن کر ناگواری ہوگی تو اگر یہ وسوسہ شیخ کے لیے موجب تکدّر ہو تو کیا تعجب کی بات ہے۔(۳۹) بزرگوں کے ساتھ اعتقاد : فرمایا کہ آج کل لوگوں میں نہ بزرگوں کے ساتھ اعتقاد ہے اور نہ بزرگوں کا ان کے قلب میں ادب ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ساری عمر ان بزرگوں کے فیضِ باطنی سے محروم رہتے ہیں، اس پر ایک اہلِ علم نے عرض کیا: حضرت! بزرگوں کا ادب حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ طریقہ یہ ہے کہ ان بزرگوں کے صاحبِ برکت ہونے کا اعتقاد کامل کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ میرے اندر جو نقائص ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے اور وہ اصلاح ان بزرگوں ہی سے کرانا ہے، تیسرے یہ عزم رکھے کہ ان بزرگ کی طرف سے میرے ساتھ خواہ کیسا ہی برتاؤ ہو، مگر میں برابر ان کی دلجوئی اور ان کی اطاعت کرتا رہوں ،گا اگرچہ اس کے دل میں ان بزرگ کے