انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے منتہی گو کیفیات سے بظاہر بالکل خالی نظر آتا ہے لیکن وہ اصلی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ ف: سبحان اللّٰہ! کیسی منطبق مثال ہے۔مواجید واحوال عبدیتِ محضہ کے خلاف ہیں : فرمایا کہ میں پھول دار کپڑا پسند نہیں کرتا، گو میں خود اس میں مبتلا ہوں لیکن الحمدللہ میں اپنے ابتلا کی وجہ سے اس کو اچھا نہیں بتلاتا۔ پھر فرمایا کہ حضورﷺ کی خدمت میں ایک پھول دار چادر ہدیہ آئی، آپﷺ نے نماز کے بعد اس شخص سے دوسری سادہ چادر منگوائی اور اس کو علیحدہ کر دیا اور فرمایا کہ قریب تھا کہ اس کے نقش ونگار میرے قلب کو مشغول کر لیتے۔ جب نبیﷺ کو مشغولی کا احتمال ہوا تو آج ہم میں سے ایسا کون ہے جو دعویٰ کرسکے کہ ہمارا قلب نقش ونگار میں مشغول نہیں ہوسکتا۔ پھر فرمایا: کپڑوں پر نقش ونگار کیا پسند کرتے جو محققین ہیں وہ کہتے ہیں کہ قلب بھی بے نقش ونگار ہونا چاہیے اور قلب کے نقش ونگار وہ ہیں جن کا نام مواجید واحوال ہیں۔ قلب ان سب قصوں سے خالی ہونا چاہیے، پس عبدیتِ محضہ خالصہ ہونا چاہیے۔ مبتدیوں کو مواجید واحوال سے بہت رغبت ہوتی ہے اور محققین کو اس سے نفرت ہوتی ہے۔ذکر کے وقت ثمرات کا منتظر نہ رہے : ایک بار عام گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ ذکر کے وقت ثمرات کا منتظر نہ رہے، نہ کوئی کیفیت یا حالت اپنے لیے ذہن میں تجویز کرے، بس اپنی تجویز کو مطلق دخل ہی نہ دے، سارے احوال کو حق تعالیٰ کے سپرد کر دے پھر جو اس کے حق میں بہتر اور اس کے استعداد کے مناسب ہوگا وہ خود عطا فرماویں گے ع کہ خواجہ خود رَوِشِ بندہ پروری داند بس ذکر کے وقت معتدل توجہ ذکر کی طرف یا اگر آسانی سے ہوسکے تو مذکور کی طرف کافی ہے اور معتدل کی قید اس لیے لگائی گئی کہ توجہ میں زیادہ مبالغہ کرنے سے قلب ودماغ ماؤف ہو جاتے ہیں جس سے پھر ضروری توجہ میں بھی خلل پڑنے لگتا ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ طبیعت میں ثمرات کا تقاضہ نہ پیدا ہونے دے، کیوں کہ اس سے علاوہ تشویش کے جو مخلِّ جمعیت ہے اور جمعیت ہی اس طریق میں مدارِ نفع ہے، بعض اوقات یاس تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔رخصت پر عمل : ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں بعض احوال میں رخصت پر عمل کرنے کو بہ نسبت عزایم پر عمل کرنے کے اصلح سمجھتا ہوں، کیوں کہ جو شخص عزایم پر عمل کرتا ہے اس کو ہمیشہ اپنے عمل پر نظر ہوتی ہے اور جو کچھ عطا ہوتا ہے اس کو بمقابلہ اپنے عمل کے کم سمجھتا ہے، اس کے دل میں یہ شکایت پیدا ہوتی ہے کہ دیکھو میں اتنے دن سے ایسی مشقت زہد وتقویٰ کی اُٹھا رہا ہوں اور اتنا عرصہ ذکر وشغل کرتے ہوگیا اور اب تک کچھ نصیب نہ ہوا، یہ کس قدر گندہ خیال ہے، برخلاف اس کے رخصت پر عمل کرنے والے کی نظر میں ہمیشہ حق تعالیٰ کی عطاؤں کا پلّہ بمقابلہ خود اس کے اعمال