انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک تو زور لگائے جائے اور دوسرا اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہی ڈال دے اور اپنے مقابل کو خود موقع دے دے کہ وہ آسانی سے اس کو پچھاڑ سکے، یہ تو نفس سے کُشتی ہے، اپنا سارا زور لگانا چاہیے، پھر اگر پورا غلبہ نہ حاصل ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ کبھی تم نے اس کو پچھاڑ دیا، کبھی اس نے تم کو پچھاڑ دیا، لیکن ہمت کسی حال میں نہ ہارنا چاہیے، پھر جب اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ یہ بیچارہ اپنا سارا زور لگا رہا ہے تو غلبہ بھی عطا فرماویں گے۔ غرض نہ ہمت ہارنا چاہیے، نہ مایوس ہونا چاہیے۔مکتوب ملقب بہ تسہیل الطریق : خود مشقت میں پڑنے کا شوق ہی ہو تو اس کا تو علاج ہی نہیں، باقی راستہ بالکل صاف ہے کہ غیر اختیاری کی فکر میں نہ پڑیں، اختیاری میں ہمت سے کام لیں، اگر کوتاہی ہو جاوے ماضی کا استغفار سے تدارک کرکے مستقبل میں پھر تجدیدِ ہمت سے کام لینے لگیں اور ہمت کے ساتھ دعا کا بھی التزام رکھیں اور بہت لجاجت کے ساتھ۔ حال: ایک صاحب نے لکھا کہ وساوس وخطرات کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے اور وساوس وخطرات بھی وہ کہ شاید کسی دہریہ کو بھی نہ آتے ہوں۔ اس وقت دل چاہتا ہے کہ کسی ترکیب سے خودکشی کر لوں، اس لیے عرض پرداز ہوں کہ خاص توجہ مبذول فرماویں اور دعا سے امداد فرماویں۔ تحقیق: دعا سے کیا عذر ہے مگر یہ حالت مذموم ہی نہیں جس کو ایسا مہتّم بالشّان سمجھا جاوے۔ صحابہؓ سے اکمل وافضل تو کسی کی حالت نہ تھی، حدیثوں میں مصرح ہے کہ ان کو ایسے وساوس آتے تھے کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جانا زیادہ محبوب سمجھتے تھے ان کو زبان پر لانے سے اور طبیبِ کاملﷺ نے اس کو صریح ایمان کی علامت قرار دیا۔ بس جو امر علامتِ ایمان ہو اس پر اگر مسرّت نہ ہو تو غم کے بھی کوئی معنی نہیں۔ ف: حضرت والا جذباتِ انسانی کے ایسے ماہر اور امراضِ روحانی کے علاج میں ایسے حاذق ہیں کہ طالبِ مذکور جو اس درجہ غم میں مبتلا تھے کہ خود کشی پر آمادہ تھے، اس کا مشورہ نہیں دیا کہ اس حالت پر مسرور ہوں، کیوں کہ تکلیف مالا یطاق ہوتی اور مشورہ مفید نہ ہوتا۔ سبحان اللّٰہ! حکیم الامت کی یہی شان ہونی چاہیے جس طرح حضرت فرمایا کرتے ہیں کہ جب کسی کے یہاں کوئی موت ہو جاتی ہے اور وہاں ضرورت وعظ کی ہوتی ہے تو معتد بہ زمانہ گذرنے کے بعد کہتا ہوں، ورنہ تازہ غم میں اگر وعظ کہا جاوے تو بالکل بیکار ہوجاوے۔تمنا اور شوق کا فرق : ایک طالب کچھ دن کے لیے مقیم خانقاہ ہوئے تھے، انھوں نے کبھی حضرت والا کو کسی گفتگو کے سلسلہ میں حضرت حاجی صاحب ؒ کا یہ ارشاد فرماتے سُن لیا کہ ایسی ہجرت سے کہ جسم تو مکہ میں ہو اور دل ہندوستان میں ، یہ اچھا ہے کہ جسم تو ہندوستان میں اور دل مکہ میں ہو۔ اس کو انھوں نے اپنے قیامِ خانقاہ کی حالت پر منطبق کیا تو یہ سوچ کر