انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شعائرِ اسلام کہلاتے ہیں۔حج وقربانی کی تعظیم کے معنی : ارشاد: حج کی تعظیم تو یہ ہے کہ رفث وفسوق وغیرہ سے اجتناب کیا جائے، یہ معنوی تعظیم ہے اور اضحیہ کی تعظیم دو طرح ہے صورتاً بھی، معناً بھی، معنوی تعظیم تو یہ ہے کہ اس میں اخلاص کا اہتمام کیا جائے اور صورتِ تعظیم یہ ہے کہ قربانی کا جانور بہت اچھا اور عمدہ ہو۔مکہ ومدینہ کی حقیقت : ارشاد: مکہ کی حقیقت تجلی الوہیت اور مدینہ کی حقیقت تجلی عبدیت ہے اور عارف ہر وقت اپنے اندر تجلی الوہیت اور تجلی عبدیت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ جہاں بیٹھے گا، مکہ ومدینہ اس کے ساتھ ہے مگر جو محقِق ہے وہ صورت کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا بلکہ حتی الامکان صورت ومعناً دونوں کے جمع کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔روح وصورتِ حج : ارشاد: روحِ حج وصول الی اللہ ہے جس کی صورت یہ حج بیت اللہ ہے۔رمضان کے اعمال برائے تحلیہ وتخلیہ ہیں : ارشاد: روزہ برائے تخلیہ رزائل ہے، کیوں کہ روزہ سے بہیمیہ منکسر ہوتی ہے اور معاصی سے رُکاوٹ ہوتی ہے اور دل میں رقت پیدا ہوتی ہے، صلوٰۃ وتراویح برائے تحلیہ ہے، کیوں کہ تکثیرِ صلوٰۃ سے انسان کے اندر اخلاقِ حمیدہ پیدا ہوتے ہیں اور نورِ طاعات زیادہ ہوتے ہیں اور قرآن کی تلاوت سے بھی قلب میں نور پیدا ہوتا اور زنگ دُور ہوتا ہے۔وقوفِ عرفات کی حقیقت : ارشاد: حج اسی کا نام ہے کہ ۹ ذی الحجہ کی نصف النہار کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کی صبح تک کسی ایک منٹ میں ایک قدم عرفات کے اندر رکھ دے، بس اسی وقتِ مذکورہ میں اگر کسی وقت بھی ایک قدم عرفات میں پڑگیا، خواہ جاگتے ہوئے یا سوتے ہوئے ہوش میں یا بے ہوشی میں تو حاجی بن گئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقوفِ عرفات کی حقیقت حاضری دربارِ شاہی ہے جب ہی تو اس میں اور کچھ شرط نہیں، صرف ایک قدم وہاں ڈال دینا شرط ہے۔حکمتِ ابقا نوعِ انسانی : ارشاد: ابقا نوعِ انسان سے ظہور اسما وصفاتِ باری تعالیٰ مطلوب ہے۔اصل مقصود عمل ہے نتیجہ مقصود نہیں : ارشاد: {یَا اِبْرَاہِیْمُ O قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْیَاج} [الصافات: ۱۰۴، ۱۰۵] اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اصل مقصود عمل ہے ترتّب نتیجہ مقصود نہیں، یہ سالکین کے بہت کام کی بات ہے کیوں کہ ابراہیم ؑ کو حکم تھا ذبح کا اور ذبح پرثمرہ کا ترتّب وقوع کہاں ہوا، صرف قصدِ ذبح اور سعی فی الذبح کا تحقق ہوا تھا مگر اس کے فعلِ کامل ہونے کی تصدیق کی گئی۔مسلمان کا کمال : ارشاد: مسلمان کا یہی بڑا کمال ہے کہ باوجود یہ کہ ذبح کے وقت اس کے دل میں رقت ہے اور جانور کی