انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غیر اختیاری اُمور کا علاج تفویض ہے : ایک طالب کو فرمایا کہ جتنے کام اختیار میں ہیں کیے جاویں اور جو امر غیر اختیاری پیش آوے اس میں ذرا جنبش نہ کریں، نہ کچھ تجویز کریں، بس خدا کے سپرد کرکے خاموش رہیں۔وساوس سے پریشانی کا علاج : فرمایا کہ وساوس کوئی پریشانی کی چیز نہیں، پریشانی سے قلب ضعیف ہو جاتا ہے جس سے دونا ہجوم ہو جاتا ہے، بجز بے پروائی اور بے التفاتی اور کوئی تدبیر نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس پر خوش ہو، اس سے قلب کو قوت ہوتی ہے اور وساوس کو قبول نہیں کرتا، بہت جلد قطع ہوجاتے ہیں اور حقیقت میں جب اس میں گناہ نہیں تو پھر پریشانی کیوں ہو، گو طبی حُزن وغم مذموم نہیں بلکہ یہ ایمان کی علامت ہے، لیکن عقلاً بے فکری کو بہر حال غالب رکھنا چاہیے تاکہ وہ حزنِ طبعی مضمحل ہو جاوے اور موجبِ پریشانی نہ ہو۔تخیلاتِ فاسدہ کا علاج : تخیلاتِ فاسدہ کا تو سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیلات کا ہجوم ہو اپنے قصد واختیار سے کسی نیک خیال کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ اس کے بعد بھی اگر تخیلات باقی رہیں یا نئے آویں، ان کا رہنایا آنا یقینا غیر اختیاری ہے، کیوں کہ مختلف قسم کے دو خیال ایک وقت میں اختیاراً جمع نہیں ہوسکتے اور اگر بالاختیار اچھے خیال کی طرف توجہ کرنے میں ذہول ہو جاوے جب متنبہ ہو ذہول کا تدارک تو استغفار سے کرے اور پھر اسی تدبیر استحضار سے کام لیا جاوے۔ یہ طریق عمل اس قدر سہل ہے کہ اس سے سہل کوئی چیز ہی نہیں۔ اس کو دستور العمل بنا کر بے فکر ہو جانا چاہیے۔ فرمایا کہ سالک کو خطراتِ منکرہ کی بنا پر اپنے کو مردُود نہ سمجھنا چاہیے، کیوں کہ ان خطرات کو شیطان قلب میں ڈالتا ہے، لہٰذا سالک بے چارے کا کیا قصور، بلکہ اس کو تو جو ناگواری کی وجہ سے اذیت ہورہی ہے، اس کا اس کو اجر ملے گا۔ غالب عادۃ اللہ یہی ہے کہ بعد وصولِ تام خطرات فنا ہو جاتے ہیں، اگر بہ مقتضائے اسباب ومصالحِ خاصہ پھر بھی فنا نہ ہوں تب بھی کچھ غم نہ کرے، کیوں کہ خطرات غیر اختیاریہ پر مطلق مؤاخذہ نہیں۔ فرمایا کہ خطرات داخلِ قلب میں واقع نہیں ہوتے بلکہ حوالی قلب میں رہتے ہیں اور جو چیز داخلِ قلب میں متوہم ہوتی ہے وہ خطرات نہیں ہوتے، بلکہ ان کا اثر اور محض انعکاس ہوتا ہے، کیوں کہ داخلِ قلب میں واقع ہونے کی چیز تو صرف عقیدۂ راسخہ ہوا کرتا ہے نہ کہ خطرہ، جو ایک محض وہمی اور سطحی چیز ہے اور کچھ نہیں۔ فرمایا کہ شیطان اسی قلب میں وسوسے ڈالتا ہے جس میں ایمان ہوتا ہے، جیسے چور وہیں گُھستا ہے جہاں مال ومتاع ہوتا ہے، بس یہ سمجھنا چاہیے کہ خطرات مؤمنین ومقبولین ہی کو پیش آتے ہیں، کافرین ومردُودین کو پیش نہیں آتے۔ فرمایا کہ خطراتِ منکرہ کو عقلاً منکر سمجھا جاوے اور اپنے اختیار کو ان سے ہرگز متعلق نہ ہونے دیا جاوے، نہ حدوثاً نہ بقاء، نہ