انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور ایک خاصیت معصیت کی سب سے اشد ہے، وہ یہ کہ کبھی بے خبری اور بے حیائی سے صغیرہ سے کبیرہ صادر ہو جاتا ہے اور وہ سبب کفر کا بن جاتا ہے، اس لیے انسان کبھی گناہ کرکے بے فکر نہ ہو، توبہ استغفار کرتا رہے، مگر یہ بھی نہیں کہ اُسی کو مشغلہ بنا لے اور اسی مراقبہ میں رہا کرے، بلکہ ایک بار خوب باقاعدہ توبہ کرکے کام میں لگے اور اس کے بعد پھر جب کبھی خیال آجایا کرے، اللّٰہم اغفرلي کہہ کر پھر آگے چلے، کام میں لگے۔قبولیتِ توبہ کی علامت : تحقیق: توبہ کے قبول ہونے نہ ہونے کے متعلق حضرت سلطان نظام الدین قدس سرّہٗ نے ایک عجیب بات فرمائی کہ اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ فلاں گناہ کر لینے کے بعد جو توبہ کی تھی وہ قبول ہوگئی یا نہیں، اس کا معیار یہ ہے کہ یہ دیکھے کہ اس گناہ کے یاد آنے سے نفس میں حَظ پیدا ہوتا ہے یا نفرت، اگر نفرت ہوئی تو توبہ قبول ہوچکی، اگر حظ ہوتا ہے تو ابھی توبہ قبول نہیں ہوئی، پھر توبہ کرے، بڑی عجیب بات ہے مگر یہ علامت ظنی ہے۔حوادث کے بعد سب قبضے قبضِ طبعی کے سبب بن جاتے ہیں : تحقیق: انسان کا وجود اور ہستی ہے ہی کیا چیز۔ ہر چیز حق تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے، خواہ مخواہ انسان اپنی ٹانگ اڑاتا ہے اور یہ دعویٰ ترقی کا نتیجہ ہے، مگر واقعات سے حق تعالیٰ دکھا دیتے ہیں اہلِ ترقی کو کہ کوئی چیز تمہارے قبضہ میں نہیں، سب ہمارے قبضہ میں ہیں۔ حوادث کے بعد سب قبضے قبضِ طبع کے سبب بن جاتے ہیں، تحقیقات اور انتظامات کچھ کام نہیں آتے۔ چناںچہ سیلاب سے ہزاروں لاکھوں مخلوق غرق ہوگئی، مگر کوئی کچھ نہ بنا سکا۔پریشانی کا علاج رضائے خالق کی سعی ہے : تحقیق: اگر انسان وحی کو عقل پر ترجیح دے تو سمجھ میں آجاوے کہ پریشانی کا سبب ہمیشہ مصیبت ہوتی ہے جس کی حقیقت خدا کی نافرمانی ہے، اگر خدا کو راضی کرنے کی سعی کی جاوے تو اس بدتری اور پریشانی سے نجات ہوسکتی ہے، ورنہ کوئی اور چیز اس سے نجات نہیں دلاسکتی، اس لیے خدا کو راضی کرنے کی فکر ہونا چاہیے۔روپیہ کی ذات سے حَظ ہونا مرض ہے : تحقیق: بعض لوگوں کو تو ضروریات کی وجہ سے روپیہ کی تلاش ہوتی ہے اور بعض کو خود روپیہ کی ذات سے تعلق ہوتا ہے، مگر یہ ایک مرض ہے، ان کو روپیہ سے حَظ مقصود ہوتا ہے کہ میں اتنے روپے کا مالک ہوں، روپیہ سے تعلق اور حَظ پر ایک بیٹے کی حکایت یاد آئی کہ وہ بیمار تھا، روپیہ کثرت سے پاس تھا، مگر علاج نہ کراتا تھا۔ دوست احباب کے زور دینے پر بمشکل علاج پر آمادہ ہوا، مگر اس طرح کہ لوگوں سے پوچھا، پہلے علاج کا تخمینہ کرالو، کیا خرچ ہوگا۔ چناںچہ تخمینہ کرایا گیا۔ طبیب کو بُلا کر نبض دکھلائی، نسخہ تجویز ہوا، مدت استعمال کا تخمینہ ہوا، قیمت کی تحقیق کی گئی اور حساب لگا کر بتلایا گیا کہ اس قدر صرف ہوگا، کہا کہ اب دیکھو کہ مرنے پر کیا صرف ہوگا، وہ بتلایا گیا، اس