انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرق مابین طمانینت قلب وسکینہ روحی وبے اطمینانی واضطرابِ طبعی : حال: رنج وراحت، خوشی وغم کی ہرشے سے بے حد متأثر ہوتاہوں، دین ودنیا کے ہر کام میں گھبرایا سا رہتاہوں، ہر بات میں جلد بازی واضطراب رہتاہے، طمانینت قلب وسکینہ جس کو کہاجاتاہے اس سے بالکل محروم ہوں گو وقت کافی موجود ہو کوئی خاص کام بھی نہ ہو۔ لیکن نماز وذکر وظیفہ وغیرہ اس طرح عجلت کے ساتھ ختم کردیتاہوں کہ جیسے کوئی آفت آرہی ہے، توبہ ویکسوئی کانام نہیں، حدیث نفس ووساوس وخطرات کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے اور اس میں نفس لذت بھی لیتا ہے۔ ایک حصہ تو ضعفِ قلب وجسمانی کمزوری کا بھی اس مرض میں شریک معلوم ہوتاہے لیکن بہت کچھ یہ چیزیں سیہ کارانہ گذشتہ زندگی کا نتیجہ ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے بہتری باتوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی، لیکن قلب کی راحت وطمانینت سے محرومی بدستور ہے، بس ایک علاج یہی سمجھ میںآتاہے کہ کچھ دنوںکے لیے حضور کے آستانہ پر لا ڈالوں۔تحقیق : آپ مذہب وفلسفہ کو کیوں مخلوط کرنا چاہتے ہیں، مذہب نے اعمال وعقائد کا مکفل بنایا ہے۔اصلاحی طمانینت وسکینہ وتوبہ ویکسوئی نہ مقصود ہے نہ اس کے انتظار کی اجازت ہے، نہ اضطراب وحدیثِ نفس وخطرات مضر مقصود ہیں، نہ ان کے ازالہ کا امر ہے، یہ سب کیفیات نفسانیہ طبعیہ ہیں جن کے وجدان وفقدان کی تحقیق اور ان کے اسباب کی تدقیق فلسفی بحث ہے، البتہ یہی چیزیں (یعنی طمانینت وسکینہ ویکسوئی) کبھی روح کی بھی صفات ہوتی ہیں جن میں مادہ کا اشتراک نہیں ہوتا، وہ بے شک مطلوب ہیں اور طاعات پر ضرور مرتب ہوجاتی ہیں، گو تدریجاً سہی، لیکن ان کا رنگ ان طبعی کیفیات سے جداگانہ ہوتاہے اور وہ روحی اطمینان اس طبعی بے اطمینانی کے ساتھ اور روحی سکون اس طبعی اضطراب کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ اور ہوتاہے، آپ میں بھی جمع ہیں۔ دلیل: اگر خدا کی راہ میں آپ کی جان کا مطالبہ ہونے لگے اور مطالب کے بجا ہونے میں کوئی اجتہادی شبہ بھی نہ رہے کیا اس وقت آپ کی رائے میں کچھ تزاحم پیدا ہوگا۔ یا آپ اپنے لیے قطعی فیصلہ کرلیں گے کہ جان حاضر کردینا چاہیے۔ گو وسوسہ کے درجہ میں اس صورت میں بعض مصالح کا فوت ہونا بھی سامنے آجائے مگر وہ آپ کے اس عزم کو ضعیف نہیں کرسکتا۔ یہ ہے وہ اطمینان جو روح کی صفت ہے، اور بفضلہ تعالیٰ حاصل ہے۔ البتہ جن کیفیات کو آپ نے مقصود لکھا ہے اور ان کے اضداد کو موجود، ان کا تعلق مادی راحت اور مادی سکون اور مادی کلفت سے ضرور ہے تو اس کا معالجہ طبی مسئلہ ہے دینی مسئلہ نہیں۔ اور نہ ان کیفیاتِ طبعیہ میں معاصی یا طاعات کو کچھ دخل ہے۔ بہت ممکن ہے اور واقعہ بھی ہے کہ ایک مطیع کو یہ گوارا کیفیات حاصل نہ ہوں اور ایک عاصی کو یا کہ کافر کو حاصل ہوں۔ جب مقصود اور غیر مقصود میں تمیز حاصل ہوگیا تو غیر مقصود کے لیے کیوں سفر کیا جائے۔طبعی غم وکسبی غم کی تحقیق اور اس کی حکمت : تحقیق: فرمایا کہ ایک بات میں لاکھوں کی بتاتاہوں۔ وہ یہ کہ طبعی غم