انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بلکہ شرط قابلیت دادا وستمدعیان قوم کے نزدیک وقف علی الاولاد کا منشا : ارشاد: بعض مدعیان خیر خواہی قوم کے مسئلہ وقف علی الاولاد کی تحریک پرمولانا محمد یعقوب صاحب ؒ نے فرمایا: ایسا خیال جرم ہے بلکہ سلبِ ایمان کا اندیشہ ،ہے کیوں کہ اس شخص کے اس خیال کا منشا صرف یہ ہے کہ مسئلہ میراث کو جو منصوص قطعی ہے مضرِ قوم اور خلافِ حکمت سمجھا جاتا ہے۔ چناںچہ اس وقت خیرخواہانِ قوم نے اس مسئلہ کے پاس کرانے کے لیے جن وجوہ کو پیش کیا تھا اُن میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح جائیداد حصے بخرے ہونے سے محفوظ رہتی ہے اور میراث کا سہام جاری ہونے سے جائیداد کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔مسئلہ میراث کو خلافِ حکمت سمجھنے کا راز : ارشاد: چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں یہ عقل کے پورے (یعنی احمق) مسئلہ میراث کو محض اس لیے خلافِ حکمت کہتے ہیں کہ اس سے جائیداد کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ارے عقلمندو! اگر حق تعالیٰ کو یہی مقصود ہو کہ مسلمان زمیندار نہ بنیں اور ان کے پاس مال ودولت جمع نہ ہو اور جہاں کچھ سرمایہ اور جائیداد جمع ہو جائے اس کو ٹکڑے کرکے متفرق کر دیا جائے تاکہ مال ودولت کی کثرت سے مسلمان آخرت سے غافل نہ ہوں، تو تم اس کے حصے بخرے ہونے سے بچانے والے کون ہو؟ حق تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ یوں سمجھتے رہیں: {وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی} [الاعلیٰ: ۱۷] اور اس پر نظر کرکے دنیا کے زیادہ جمع کرنے کی فکر نہ کریں۔شریعت نے مقصوداً مال جمع کرنے سے منع کیا ہے : ارشاد: شریعت نے مقصوداً مال جمع کرنے سے منع کیا ہے اور اس کو مسلمانوں کے لیے مضر بتلایا ہے إلا من قال ہٰکذا وہٰکذا مگر جو اِدھر اُدھر تقسیم کرتا رہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اطمیانِ قلب کے لیے بھی مال جمع کرنا جائز ہے، مگر جواز سے اس کا مطلوب ومقصود ہونا ثابت نہیں ہوتا، اصل مقصود تو آخرت کی طرف مسلمانوں کو متوجہ ہونا ہے اگر کسی کو بدون مال جمع کیے اطمینان نہ ہوتا ہو تو اس وقت دین ہی کی مصلحت سے جمعِ مال کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ بدونِ اطمینان کے دین کا کام بھی نہیں ہوسکتا اور جب جائیداد حسبِ میراث شرعی تقسیم ہوکر دس گھروںمیں پہنچے گی تو دس آدمیوں کو اطمینان نصیب ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر ساری جائیداد ایک ہی گھر میں رہتی تو صرف اسی گھر کو اطمینان ودل جمعی ہوتی لہٰذا مسئلہ میراث خلافِ حکمت ہرگز نہیں۔