انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صرف اس کے ساتھ رضائے دائمی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے نسبت مع اللہ کی ۔ اور صرف ذکر دائم یا دوام حضور یا ملکۂ یاد داشت جس کو کہتے ہیں وہ نسبت کی حقیقت نہیں۔ البتّہ حصولِ نسبت میں معین بہت ہے ۔ کیوں کہ جس کو ہر وقت حق تعالیٰ کا دھیان رہتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونا مستعبد ہے۔ یہ تو نسبت کی حقیقت ہے حق تعالیٰ کو بندہ کے ساتھ ایک خاص تعلق رضا کا ہوجانا جس کا خاصہ ایک خاص انجذاب ہے جس کے لوازم میں سہولتِ اطاعت اور حضور دائم ہے اور یہ محض موہوب ہے کیوں کہ کسی عملِ صالح میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ رضائے الہٰی کے حصول کے لیے کافی ہوسکے گو عادۃ اللہ یہ ہے کہ محض اپنے فضل سے اپنی رضا کو اعمالِ صالحہ پر مرتب فرمادیتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی شحص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا، بلکہ محض حق تعالیٰ کے فضل سے جائے گا۔ اور یہ نسبت مع اللہ عادتاً پھر کبھی زائل نہیں ہوتی۔ جیسے بلوغ ہونے کے بعد صفتِ بلوغ کبھی زائل نہیں ہوتی۔ اس مسئلہ کو صوفیہ نے بعنوان فنا تعبیر کر کے فرمایا ہے کہ الفاني لایردّ یعنی فانی وواصل کبھی مردود نہیں ہوتا۔ اگر یہ شبہ ہو کہ بعدوصول وحصول نسبت کے بھی تو معاصی کا صدور ہوسکتا ہے بلکہ ہوتاہے پھر رضائے دائمی کا تحقق کہاں رہا تو سمجھ لو کہ گہری دوستی کے بعد یہ ضروری نہیںکہ کبھی باہم شکرنجی بھی نہ ہو، گاہے گاہے شکرنجی بھی ہوجاتی ہے لیکن تدارک کے بعد پھر ویسا ہی تعلق ہو جاتا ہے بلکہ دراصل اس خفگی کے زمانہ میں بھی دوستی کا اصل تعلق بدستور قائم رہتا ہے وہ زائل نہیں ہوتا۔ شکرنجی محض عارضی ہوتی ہے۔ مثلاً تکمیل صحت کے بعد ضروری نہیں کہ اس حالت میں کبھی زکام بھی نہ ہو یا کبھی اگر بد پرہیزی کرلے مثلاً گڑ کھالے تو اس سے نقصان نہ ہو بد پرہیزی سے نقصان ضرور ہوگا۔ لیکن محض عارضی تدارک کے بعد پھر وہی حالت غالبہ صحت کی عود کرآئے گی یا مثلاً درسیات کے فراغ کے بعد یہ ضروری نہیں کہ کبھی کسی مقام پر اٹکے ہی نہیں ۔ کہیں کہیں بعد فراغ بھی اٹکتا ہے لیکن ذرا توجہ سے پھر چل نکلتا ہے۔نسبت کے تحقق کے لیے رضائے تام شرط ہے : نسبت متحقق ہوتی ہے کاملِ فضائے حق پر نہ کہ مطلق رضائے حق پر، کیونکر رضا تو ہر فعل حسن پر مرتب ہوتی ہے چناں چہ اگر کوئی شخص زنا کرے اس کے بعد نماز بھی پڑھے تو گو زنا پر ناراضی مرتب ہوگی لیکن نماز پر رضا بھی مرتب ہوگی، افعالِ قبیحہ وحسنہ پر اپنی اپنی جگہ برابر ناراضی اور رضا مرتب ہوگی لیکن نسبت کے تحقق کے لیے رضائے تام شرط ہے، رضائے نا تمام کی بالکل ایسی مثال ہے۔ جیسے مرض کی حالت میں عارضی افاقہ ہوجائے گو وہ بھی بسا غنیمت ہے۔اتباعِ سنت کو خاص دخل ہے انجذاب میں : ۱۱۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب ؒ کے سلسلے میں بہت ہی جلد نفع شروع ہوجاتا ہے اس کہ وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں بطریق جذب نفع پہنچتا ہے نہ بطریق سلوک اور اس جذب کی وجہ یہ ہے کہ