انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہمت کو پہنچتی ہے۔ جو گُر حضرت نے فرمایا ہے استحضار وہمت کا سراسر نسخۂ اکسیر ہے اصلاحِ امت کاحال کی دوقسمیں ہیں : ۷۔ تصوّف میں رسوخ اعمال اختیاریہ مطلوب ہے نیز مامور بہ محبت عقلی ہے نہ کہ طبعی۔ حال کے دو معنی ہیں: ایک تو کیفیت غیر اختیاریہ، دوسرے رسوخ اعمالِ اختیاریہ ۔ دوسرے معنی میں حال کا ترتبلازم ہے کیوں کہ وہ موعود ہے ففي الحدیث کذالک الإیمان إذاخا لطہ بشاشۃ القلوب وفي کلام اللّٰہ {فَمَنْ یُّرِدِ اﷲُ اَنْ یَّہدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِج} [الأنعام: ۱۲۵] اور تصوف میں یہی حال مطلوب ہے ۔ جب کوئی شحص اعمالِ صلاح بہ تکلف اختیار کرتا ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت ہونے لگتی ہے اور کیفیتِ راسخہ پیدا ہوجاتی ہے اور گو یہ کیفیت رسوخ بذاتہٖ غیراختیای ہے لیکن بایں معنی اختیاری ہے کہ اس کے اسباب اختیاری ہیں یعنی اعمالِ صالحہ مثلاً محبت حق تعالیٰ کے ساتھ پیدا کرنا واجب ہے کیوں کہ نصوص میں اس کی تحصیل کا اثر ہے بخلاف شوق وذوق کے اس کی تحصیل کا کہیں بھی امر نہیں ۔ جس محبت کی تحصیل ماموربہ ہے وہ عقلی ہے اور محبتِ عقلی اختیاری ہے۔ بخلاف محبتِ طبعی کے کہ وہ غیر اختیاری ہے اس لیے مامور بہ بھی نہیں ۔طریقۂ حصولِ یقین : ۸۔ اوّل بہ تکلف عمل کرنا چاہئے۔ اس کی برکت سے یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ اور کوئی طریق حصولِ یقین کا نہیں۔عقل وایمان بڑی دولت ہے : ۹۔ کسی حال کا طاری ہونا اور چندے جاری رہنا یہ بھی بڑی دولت ہے۔ ہمیشہ رہنے کی چیز تو صرف عقل وایمان ہے۔ باقی سب میں آمد ورفت رہتی ہے۔حصول نسبت کی ترتیب وحقیقت : ۱۰۔ حصولِ نسبت کی ترتیب اور حقیقت یہ ہے کہ اوّل بہ تکلف اعمالِ ظاہرہ وباطنہ کی اصلاح کرے بالخصوص اعمالِ باطنہ کی اصلاح زیادہ اہم اور دشوار ہے جب اعمال صالحہ ظاہرہ وباطنہ پر ایک معتدبہ مدت تک مواظبت رہتی ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کیفیتِ راسخہ پیدا ہوجاتی ہے اس سہولت کے لیے تمام مراقبات، ریاضات، مجاہدات اذکار واشغال مقرر کیے گئے ہیں باقی اصل چیز اصلاح اعمال ظاہرہ وباطنہ ہی ہے۔ جس پر نسبتِ حقیقی مرتب ہوتی ہے۔ جب بندۂ اعمالِ صالحہ ظاہرہ وباطنہ پر مداومت کرتا ہے تو حق تعالیٰ کو