انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کو طاعات میںشمار کرلیتے ہیں۔فنا وبقا کی تعریف : ارشاد: یہاں تم جو اپنی جان پیش کرتے ہو سڑی ہوئی ہے، کیوں کہ صفاتِ رذیلہ سے متصف ہے اور حق تعالیٰ اس کے عوض میں تم کو ایسی جان عطا فرماتے ہیں جو لطیف وشفیف ہے، کیوں کہ اب وہ متصف بہ صفاتِ الٰہیہ ہو جاتی ہے۔ اسی کا نام فنا وبقا ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے، جیسے کیمیاوی طریقہ سے تانبہ کو سونا بنا دیا جاوے۔حقیقت میں واصل اللہ تعالیٰ ہیں : ارشاد: حقیقت میں وصول انسان کے چلنے سے نہیں ہوتا، بلکہ حق تعالیٰ سالک کی طلبِ صادق کو دیکھ کر خود آکر اس سے مل جاتے ہیں تو دراصل واصل وہ ہیں یہ واصل نہیں ہے، مگر یہ بھی ان کی رحمت ہے کہ وہ طالب کو واصل کا لقب دیتے ہیں۔شارع کا مقصد سمجھ لینا تفقہ ہے : ارشاد: فضیلت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ شارع کا مقصد سمجھ لیا جاوے اسی کا نام فقہ ہے اور یہی وہ چیز ہے جس میں اکابر سلف ممتاز تھے گو وسعتِ نظر میں متأخرین بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر عمقِ نظر میں متقدمینبدرجہا افصل ہیں۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی وغیرہ اسی عمقِ فہم کی وجہ سے امام ہیں۔حضور ﷺ کے فضائل کا بیان : ارشاد: حضور ﷺ کا مذاق یہ تھا کہ آپ ﷺ کو اتباعِ احکام کا سب سے بڑھ کر اہتمام تھا۔ حضور ﷺ نے اپنے فضائل کو زیادہ ترغیبِ اتباع کی نیت سے بیان فرمایا ہے۔عقائد جس طرح مقصود بالذات ہیں اسی طرح مقصود للاعمال ہیں : ارشاد: عقیدۂ تقدیر کو اصلاح اعمال میں بڑا دخل ہے کیوں کہ اس سے حزن وبطر رفع ہو جا تا ہے اورحزن جڑ ہے تعطّلِ ظاہر کی اور تکبر وبطر اصل ہے تعطّلِ باطن کی، یعنی غمگین وپریشان آدمی ظاہر میں تمام دین ودنیا کے کاموں سے معطل ہوتا جاتا ہے اور متکبر آدمی کا دل خدا کے تعلق سے معطل ہو جاتا ہے جب تک تکبر نہ نکلے خدا کے ساتھ دل کو لگاؤ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح عقیدۂ توحید سے مخلوق کا خوف وطمع زائل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کے اعتقاد کو آپ کے اتباع میں دخل ہے ۔ پس عقائد جس طرح مقصود بالذات ہیں اسی طرح مقصود للاعمال بھی ہیں۔تاخیر حسنات الیٰ رمضان پر بحث وتحقیق : ارشاد: اللہ ورسول کو تاخیرِ طاعات مطلوب نہیں بلکہ تسارع وتسابق الی الخیر مطلوب ہے۔ چناں چہ جا بجا {فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ}۔ [البقرۃ: ۱۴۸] {یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرٰتِ} [آل عمران: ۱۱۴] نص میں وارد ہے۔ اسی طرح حدیث تضاعف ثواب في رمضان کا مطلب تعجیل اعمال فی رمضان ہے۔ نہ کہ تاخیر اعمال الیٰ رمضان۔ یعنی رمضان کے اندر، طاعات کے اندر جلدی کی جاوے، یعنی جن طاعات کی ہمت ہوسکے اور جس عملِ صالح کی توفیق ہوسکے اس کو جلدی رمضان ہی میں کر دو۔ رمضان کے بعد کے لیے موخر نہ کرو، کیوں کہ رمضان میں ثواب زیادہ ہے