انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مقامات طے بھی ہوگئے تو ان کے طے ہونے میں وہ حظ نہیں جو اس سمجھنے میں ہے کہ ہم نے ابھی تک کچھ بھی راستہ قطع نہیں کیا۔ گویا تیلی کے بیل کی طرح ہیں اور یہ حظ ہے انکسار وافتقار اور عجز وعبدیت کا۔بشاشتِ شیخ شرطِ تربیت ہے : ارشاد: باطن کا علاج اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ معالج کے قلب میں مریض کی طرف سے بشاشت ہو۔ بلکہ طبیبِ ظاہری بھی بغیر بشاشت کے علاج نہیں کرسکتا۔شیخ موافقِ سنت کا اتباع کرے : ارشاد: جس کے اعمالِ ظاہرہ وباطنہ منہاجِ شریعت پر ہوں، اس کی صحبت سے استفادہ کرے۔ اصل چیز اعمال ہی ہیں اور حدود وسنت کے اندر رہ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ بعض مرتبہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ خود صاحبِ کیفیت کو بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔سب کاملین کو اپنے نقص نظر آتے ہیں اور یہی مقتضا ہے عبدیت کا : ارشاد: پورا کامل بجز انبیا کے تو کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے، سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں اور مغموم بھی ایسے اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہوسکتے۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے ہاں! سعی کامل کی توقع بلکہ عزم واجب ہے، اس کی مثال وہ مریض ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہے مگر فکرِ صحت اور اس کی تدبیر کا ترک جائز نہیں سمجھا جاتا اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں فکرِ پر موعود ہے۔ واللّٰہ لا یخلف المیعاد۔ بس اسی طرح عمر ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ وہذا ہو معنی ما قال الرومي ؒ : اندریں رہ می تراش ومی خراش تادمِ آخر دمے فارغ مباش تا دم آخر دم آخر بود کہ عنایت با تو صاحب سر بود سب سے آخر میں خواہ اس کو اظہارِ حال کہیے یا آپ کی ہمدردی یا رفعِ التباس جو چاہے نام رکھیے یہ کہتاہوں کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں۔ جس سے یہ اثر ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجا کو، مگر