انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شیخ سے عدمِ مناسبت کی ایک علامت : فرمایا کہ جو طالب اپنے کام میں باقاعدہ لگا ہوتا ہے اس کو ہر وقت اپنے اندر شیخ کی معنوی کرامتوں کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، لہٰذا اس کو اپنے شیخ کی حسّی کرامتیں دیکھنے کی ہوس نہیں ہوتی اور اگر مدت طویلہ تک ایسا مشاہدہ نہ ہوتو اس کو چاہیے کہ کوئی دوسرا شیخ تلاش کرے، کیوں کہ یہ دلیل ہے اس کی کہ اس کو شیخ سے مناسبت نہیں۔شیخ کی مجلس میں توجہ کس طرح رکھے ؟: فرمایا کہ شیخ کی مجلس میں شیخ کے قلب کی طرف متوجہ رہے خواہ وہ کسی کام میں مشغول ہو اور یہ تصور رکھے کہ اس کے قلب سے میرے قلب میں انوار آرہے ہیں۔مذاقِ طبعی حضرت والا ؒ : فرمایا کہ مذاق تو میرا یہی ہے کہ اپنی ہی حالت میں محوو مستغرق رہوں اور خاموش بیٹھا رہوں، لیکن کیا کروں اہلِ مجلس اور اہلِ ضرورت کی خاطر سے بولنا پڑے۔حضرتِ والا ؒ کا تصوّف : ایک بار کسی سلسلۂ کلام میں فرمایا کہ یہاں تو مُلّا پن ہے، ہم نہیں جانتے کہ درویشی کیا چیز ہے۔ طالبِ علم ہیں، صاحبِ علم نہیں۔ بس قرآن وحدیث پر عمل کرنا بتاتے ہیں، پھر اس میں جو کچھ کسی کو ملنا ہوتا ہے مل جاتا ہے اور الحمد للّٰہ! ایسا ملتا ہے: ما لا عین رأت ولا أذنٌ سمعت، ولا خطر علی قلب بشرٍ۔ مگر ظاہر میں کچھ نہیں، نہ ہوحق ہے، نہ وجد وحال ہے، نہ کشف وکرامت ہے۔توجہ کا ماثور طریق : فرمایا کہ مجھے تو اپنی توجہ کو سب طرف سے ہٹا کر ایک خاص شخص کی جانب جو مخلوق ہے ہمہ تن متوجہ ہو جانے میں غیرت آتی ہے، یہ تو حق خاص اللہ تعالیٰ ہی کا ہے کہ سب طرف سے توجہ ہٹا کر بس اسی ایک ذاتِ واحد کی طرف ہمہ تن رہا جائے۔ البتہ دلسوزی اور خیرخواہی کے ساتھ تعلیم کرنا اور دل سے یہ چاہنا کہ طالبین کو نفع پہنچے اور ان کی دینی ھالت درست ہو جاوے یہ توجہ کا ماثور طریق ہے اور یہی حضراتِ انبیا ؑ کی سنت ہے اور یہ نفع اور برکت میں توجہ متعارف سے بڑھ کر ہے کیوں کہ اس کے اثر کو بقا ہے، بہ خلاف توجہ متعارف کے کہ اس کا اثر بس اسی وقت ہوتا ہے پھر کچھ نہیں اور فرمایا کہ مجھے تو باوجود جائز سمجھنے کے توجہ متعارف سے طبعی توحش ہے، جیسے اوجھڑی سے کہ گو حلال ہے، لیکن طبیعتیں اس کو قبول نہیں کرتیں۔شیخ کے قوی النسبت اور صاحبِ برکت ہونے کی علامت : فرمایا کہ یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ بغیر قصداً توجہ کیے ہوئے اثر کیسے ہوتا ہے، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض قلوب ہی کے اندر تعدیہ کی خاصیت رکھی ہے، جیسے کہ آفتاب کا یہ قصد نہیں ہوتا کہ اس کا نور دوسروں تک پہنچے، لیکن پھر بھی اس کا نور دوسروں کو پہنچتا ہی ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صفت ہی رکھی ہے کہ جو شئے اس کے مقابل میں آجاتی ہے منور ہو جاتی ہے۔ بلاقصد ہی فیض کا پہنچنا شیخ کے زیادہ