انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کمال کی بات ہے اور اس کے نہایت قوی النسبت اور صاحبِ برکت اور مقبول ہونے کی علامت ہے۔انسان کا کمال : فرمایا کہ انسان کا کمال تو یہی ہے کہ معاصی کا میلان ہو اور پھر بھی اپنے آپ کو روکے رہے اور معاصی کا صدور نہ ہونے دے۔پُرانے معمولات کو چُھڑانا نہ چاہیے : فرمایا کہ جس ذکر سے دلچسپی ہوتی ہے اس پر مُداومت بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے دوران جمعیت ویکسوئی بھی رہتی ہے جو معینِ مقصود ہے، اسی واسطے میں پُرانے معمولات کو نہیں چُھڑاتا، کیوں کہ پُرانے معمولات سے اُنس ہو جاتا ہے اور ان سے دلچسپی بھی زیادہ ہوتی ہے، نیز معمولات میں مداومت کی بدولت ایک خاص برکت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت والا کو اگر بعض مجتہدین کے اقوال پر بھی کسی ملازمت کے جواز کی گنجایش ملتی ہے تو اس عام ابتلا اور ضعفِ ہمم کے زمانے میں اس گنجایش کی بنا پر اجازت دے دیتے ہیں، کیوں کہ تنگی معاش میں اس سے اشد دینی ضرر کا اندیشہ ہے۔شیخ کی حقیقی کرامت : طالبین کے اندر اہتمامِ دینی اور فکر جائز وناجائز پیدا کر دینا ہی تو شیخ کی حقیقی کرامت اور اس کے صاحبِ فیض وبرکت ہونے کی بیّن علامت ہے۔ صاحبِ اجازت کے لیے ظاہری وجاہت کی شرط: فرمایا کہ مصالح دِینیہ کا متقضاء یہ ہے کہ صاحبِ اجازت میں کسی نہ کسی قسم کی کچھ ظاہری وجاہت بھی ہو، دینی یا دُنیوی مثلاً: اہلِ علم ہو یا کسی معزز طبقہ کا ہوتا کہ اس کی طرف رجوع کرنے میں کسی کو عار نہ آئے اور طریق کی بے وقعتی نہ ہو۔علامتِ محبوبیت عنداللہ حضرتِ والا ؒ : یہ بارہا ہزارہا کا مشاہدہ ہے کہ حضرت کو دیکھتے ہی خالی الذہن کے قلب کے اندر حُسنِ عقیدت پیدا ہو جاتی ہے اور بے اختیار کشش ہونے لگتی ہے جو علامت ہے محبوبیت عند اللہ کی۔ چناںچہ ایک موقع پر خود حضرت والا ؒ نے فرمایا کہ جس کسی سے میں ملتفت ہوکر دو باتیں کر لیتا ہوں وہ ایسا مسخّرہو جاتا ہے گویا اس کا دل مُٹھی میں آگیا۔اعزّا کی تربیتِ باطنی سے عذر مناسب ہے : فرمایا کہ بعد تجربہ بس اسلم صورت یہی سمجھ میں آئی کہ اعزّہ کی تربیتِ باطنی سے عذر ہی کر دیا جاوے۔ چناںچہ اب میں اکثر صورتوں میں یہی کیا کرتا ہوں، کیوں کہ ادھر ان کو بھی خصوصیت کی توقع ہوتی ہے اور ادھر خود مجھ کو بھی خصوصیت برتنے کا طبعی تقاضہ ہوتا ہے اور اگر طبعی تقاضہ پر دینی مصلحت کو ترجیح دی جاوے اور سختی ہی کا برتاؤ کیا جائے تو پھر ناگواری کا اثر واسطہ در واسطہ دُور تک پہنچتا چلا جاتا ہے۔امنِ باطنی کے لیے سیاست بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے : فرمایا کہ شیخِ کامل کے اندر ملوک کی سی سیاست ہونا ضروری