انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
أنصافاً فالآخر أفضل۔ ’’في رد المحتار‘‘۔ وروی الطبراني مرفوعا الا بد من صلاۃ بلیل ولو حلب شاۃ، وما کان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل۔ وہذا یفید أن ہذہ السنۃ تحصل بالتنفل بعد صلوۃ العشاء قبل النوم۔ (۱/۷۱۵) اوسط واخیر کے افضل ہونے سے بھی اوّل شب میں جواز مفہوم ہوا اور طبرانی کی روایت میں اس کی صاف تصریح ہے اگر کسی کو افضل کی ہمت نہ ہو محض ترک سے جائز ہی پر عمل کرلینا احسن ہے۔ اسی طرح بیداری کا اگر تیقن نہ ہو بعد عشا سب معمولات کو ادا کرلینا احسن ہے۔استغفار وندامت کی ضرورت : ارشاد: اگر بوجہ کثرتِ کاروبار کے معمولات واواراد پورا نہ کرسکے تو جتنا ہوسکے کرتا رہے جو کمی رہ جائے استغفار وندامت سے اس کی تلافی کرے۔ کام بنانے کے لیے کافی ہے۔تمکین کی تعریف اور اس کے حصول کا طریقہ : ارشاد: ذاکر کو انقلاباتِ احوال وکیفیات سے بالکل قطع کرنا چاہیے، مقصود دو امر کو رکھنا چاہیے: دوامِ طاعت وکثرتِ ذکر استقامت کے ساتھ، اس طرح مشغول رہنے سے استعداد اخیر میں مناسب حالت محمودہ پر قرار ہوجاتاہے۔ جس کو اصطلاحِ تصوف میں تمکین کہتے ہیں۔ورد کا اصلی مقصود عبدیت ہے: ارشاد : ورد سے جو اصلی مقصود ہے وہ خود مرض میں بھی حاصل ہے، یعنی عبدیت۔نفع کے لیے قصد کی ضرورت ہے : ارشاد: صرف دل سے ذکر کرنا بھی نافع ہے حسب بقصد ہو، ورنہ بلا قصد نفع مقصود حاصل نہیں ہوتا، قلب اور زبان دونوں کو جمع کرنا زیادہ نافع ہے۔پریشانی کے وجوہ اور اس کے دفعیہ کا طریقہ : ارشاد: دل نہ لگنے کی بہت صورتیں ہیں کبھی تو کسی کام کے تعلق کی وجہ سے پریشانی ہوجاتی ہے، کبھی کسی عضو میں کچھ مرض ہوتاہے جس کی وجہ سے دل کی بھی پریشانی ہوجاتی ہے، کبھی بھوک کبھی گناہ کا ارتکاب۔ ان اسباب میں جس کا فعیہ اختیار میں ہو، اسے تو دفع کرکے ذکر میں مشغول ہو، بھوک ہو کھانا میسر ہو کھالے۔ تعلق اگر ناجائز ہے تو چھوڑدے پھر ذکر میں مشغول ہو، اگر اس پر بھی دل نہ لگے تو کچھ پروا نہ کرے ذکر کو مقصود سمجھ کر پورا کرلے۔ ان شاء اللہ ذکر کی برکت سے حالت کی اصلاح ہوجائے گی۔طبیعت کا گھبرانا بھی عذر ہے تخفیفِ تلاوت کے لیے : ارشاد: ذکر وتلاوت میں جب طبیعت زیادہ گھبرا نے لگے جلدی ختم کردیا جائے، یہ عذر ہے اور عذر میں احکام کی تخفیف ہوجاتی ہے۔اذان کا جواب مخلِ ذکر نہیں : ارشاد: ذکر کی حالت میں اگر اذان ہونے لگے تو ذکر موقوف کرکے جواب ہی دینا زیادہ مناسب ہے اور اس کو مخلِ ذکر نہ سمجھا جائے۔ سنن کی برکت سے ذکر کا معدن منور ہوتاہے اور اس سے ذکر میں زیادہ اعانت ہوتی ہے۔