انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بِالَّذِّیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ} [إسراء: ۸۶] جس سے علم پر ناز کرنے کی جڑ اکھڑتی ہے اور ارشاد ہے: {لَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰک لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاقلا} [إسراء: ۷۴] اس سے عمل پر نازک کرنے کی جڑ اکھڑتی ہے۔علامت محرومیت نیاز پیدا کرنا : نیاز پیدا کرنے کی کوشش کرو، پہلا قدم اس طریق میں فنا ہونا اور اپنے کو مٹا دینا ہے، اگر یہ بات پیدا نہ ہوئی تو وہ شخص محروم ہے۔مشورہ کی مصلحت : اگر کسی کا شیخ زندہ نہ ہو، وہ بھی مشکلات میں اپنے رائے سے فیصلہ نہ کرے، بلکہ اس کو اپنے چھوٹوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ غرض چھوٹے بڑوں کا اتباع کریں اور بڑے چھوٹوں سے مشورہ لیں۔ اس اُمت کے چھوٹے بڑے سب کام کے ہیں۔ اس رائے کا ماخذ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: {وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج} [آل عمران: ۱۵۹] حضورﷺ کو صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا حکم ہے، لیکن یہ حکم نہیں کہ ان کے مشورہ پر عمل کریں، بلکہ عمل کے متعلق ارشاد ہے: {فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِط} [آل عمران: ۱۵۹] کہ مشورہ کے بعد آپ کا جو اراد ہوجائے، اللہ پر توکل کرکے اس پر عمل کر لیجیے۔ اہل شوریٰ کی رائے کا اتباع ضروری نہیں، مشورہ کا حکم محض اس لیے ہے کہ اس کی برکت سے حق واضح ہو جاتا ہے، خواہ مشورہ دینے والوں کی رایوں میں سے کسی ایک کا حق ہونا واضح ہو جاوے، یا سب رایوں کے سننے سے کوئی اور صورت ذہن میں آجاوے جو حق ہو۔ شیخ کی ناراضی وتکدّر: شیخ کی ناراضی وتکدّر سے گو آخرت میں مواخذہ نہ ہو کیوں کہ وہ نبی نہیں ہے جس کی ناراضی سے گناہ ہو، مگر تجربہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو دنیا میں کبھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ چناں چہ حضرت جنید ؒ حسین ابن منصور حلاج ؒ سے ناراض تھے (کیوں کہ وہ اسرار کو ظاہر کر دیتے تھے، ضبط نہیں کرتے تھے، وہ اپنے کو ضبط سے عاجز سمجھتے تھے، مگر حضرت جنید ؒ جانتے تھے کہ یہ ضبط سے عاجز نہیں ہیں، اگر ہمت کریں تو ضبط کر سکتے ہیں) ان کو بھی چین نصیب نہ ہوا، عمر بھر پریشان رہے۔ یہاں تک کہ: أنا الحق کہنے پر فتویٰ کفر کا لگایا گیا، کیوں کہ ابن منصور ؒ سے علما نے جو گفتگو کی تھی، اس سے ان کا مجنون ومختل الحواس ہونا ظاہر نہ ہوتا تھا، پھر فتویٰ قتل کا دے دیا۔الہام کی مخالفت سے دُنیوی ضرر ہوتا ہے : الہام کی مخالفت سے آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا، مگر تجربہ یہ ہے کہ دنیا میں نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ چناںچہ ایک مقامی بزرگ کسی نووارد مسافر بزرگ سے ملنے کو اُتھے، الہام ہوا نہ جاؤ، یہ بیٹھ گئے، پھر خیال ہوا یہ الہام نہیں خیال ہوگا، آخر ان سے ملنے میں کیا حرج ہے چناں چہ پھر اُٹھے، پھر الہام ہوا نہ جاؤ، یہ بیٹھ گئے، تیسری مرتبہ پھر اُٹھے، پھر وہی الہام ہوا، مگر یہ نہ رُکے اور چل کھڑے ہوئے، دو چار قدم چلے ہوں گے کہ گِر پڑے اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔