انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شائستہ عنوان کی تعلیم : ارشاد: شریعت نے بھی الفاظ کے ادب اور شائستگی کی بہت تعلیم دی ہے کہ ایسے الفاظ نہ استعمال کرو جن میں بے ادبی وگستاخی کا ابہام بھی ہوتا ہو۔ چناں چہ عبدی واُمتي کہنے کی ممانعت ہے اس کے بجائے فتأتي وفتاتي کہنے کی تعلیم دی گئی، راعنا کہنے کی ممانعت ہے انظرنا کہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور عقل کا مقتضا بھی یہی ہے۔ مثلاً کسی بادشاہ سے جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے کل دانت گر گئے ہیں، معبِّر کا یہ کہنا کہ اس کا سارا خاندان آپ کے سامنے مر جائے گا، اس کا نتیجہ جیل خانہ جانا ہوگ اور بجائے اس کے (دوسرے معبر کا) یہ کہنا کہ حضور کی عمر اپنے خاندان میں سب سے زیادہ ہوگی، موجب خلعت وانعام ہوگا۔ادبِ سماع : ارشاد: یہ بات آدابِ سماع میں سے ہے کہ جس شعر پر کسی کو وجد ہوگا، اسی کر مکرر پڑھتے رہیں۔ جب تک کہ وجد کو سکون نہ ہو ورنہ صاحب وجد کو قبض شدید ہو جاتا ہے، جس سے بعض دفعہ نوبت موت کی آجاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ بھی آداب میں سے ہے کہ جب صاحبِ وجد کھڑا ہو تو سب کھڑے ہو جاویں تاکہ موافقت سے اس کو بسط ہو اور مخالفت سے قبض نہ ہو۔سماع سے موت کے اقتران کی وجہ : ارشاد: بعض وقت موت کا اقتران سماع سے صرف ظاہری ہوتا ہے اور حقیقت میں سببِ موت بسط نہیں ہوتا بلکہ ضعفِ قلب وغیرہ ہوتا ہے۔موت کے وقت تفویض سے کام لینا کمال ہے : ارشاد: بعض اہلِ محبت نے سماع میں موت آنے کی تمنا اس لیے کی کہ اس وقت محبت کو ہیجان ہو جاتا ہے اور تلذّت کے ساتھ آتی ہے، لیکن جو حضرات محقق اور مقتدا ہیں وہ ہر پہلو پر نظر رکھتے ہیں اس لیے وہ اس کی تمنا نہیں کرتے، بلکہ ہمت سے کام لیتے ہیں اور خود کوئی صورت تجویز نہیں کرتے۔حضراتِ صحابہؓ کے مکالمہ ومناظرہ کا رنگ : تحقیق: حضراتِ صحابہؓ کے مکالمات ومناظرات کا رنگ یہی تھا کہ تکرارِ حق سے ان پر حق واضح ہو جاتا تھا، بحث وتمحیص کی ضرورت نہ ہوتی تھی، چناںچہ مناظرہ قتالِ مرتدین اس کی دلیل ہے۔ذوق ومناسبت ایک نعمت ہے لیکن شرطِ مقبولیت نہیں : تحقیق: محبت طبعیہ کا دار ومدار مناسبتِ باطنی پر ہے اور مناسبتِ باطنی کسی کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ہے۔ کسی کو رسول اللہﷺ سے زیادہ ہے وہذا ہو الأکثر إلا بما في العوام اور بعض کو کسی سے بھی مناسبت نہیں، وہ محض خشک لکڑی ہیں جیسے نجدی مگر ان کو بھی ناقص نہ سمجھو، کیوں کہ ذوق وشوق شرطِ مقبولیت نہیں ہاں نعمت ضرور ہے کیوں کہ اس سے عمل میں سہولت ہو جاتی ہے جیسے حسنِ ظاہری نعمت تو ہے مگر شرطِ مقبولیت نہیں، گنجے بدصورت کو بھی قربِ حق ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ذوق ومناسبت ایک حسنِ باطنی ہے اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو نعمت ہے لیکن اگر کسی کو حاصل نہ ہو تو کوئی نقص نہیں کیوں کہ قرب ورضائے حق کا مدار محبتِ عقلیہ پر ہے