انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مان لیا جائے، ابن منصور نے صاف تصریح کر دی ہے کہ أنا الحق کے معنی یہ ہیں کہ میں کچھ نہیں۔ یہ معنی نہیں کہ میں ہی سب کچھ ہوں۔(۲۳) احوال وکیفیات کے آثار : ابن منصور نے فرمایا کہ انبیاء ؑ احوال وکیفیات پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے مالک، وہ احوال وکیفیات کو پلٹ دیتے ہیں، احوال ان کو پلٹ نہیں سکتے۔ انبیا کے سوا دوسروں کی یہ شان ہے کہ ان پر احوال وکیفیات کی سلطنت ہوتی ہے، احول ان کو پلٹ دیتے ہیں اور وہ احوال کو نہیں پلٹ سکتے۔ اسی طرح اولیا میں جو کامل متبعِ سنت ہوتے ہیں وہ بھی انبیا کی طرح احوال پر غالب ہوتے ہیں، مگر درجۂ کمال تک پہنچنے سے پہلے احوال وکیفیات ہی غالب رہتی ہیں۔ (۲۴) ابن منصور سے غلبۂ حال کے وقت یہ کلمہ أنا الحق بے ساختہ نکل جاتا تھا اور انھوں نے تو معنی بھی بتلا دیے کہ اپنی ہستی کا دعویٰ نہیں بلکہ فنا کا اظہار ہے کہ ایک کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں، خود اپنی ہستی بھی کچھ نہیں ؎ دل ہو وہ جس میں کہ کچھ نہ ہو جلوۂ یار کے سوا میری نظر میں خار بھی جامِ جہاں سے کم نہیں (۲۵) فرمایا کہ اولیا فانی صفت ہوتے ہیں، یعنی ان میں نہ رنج اثر کرتا ہے، نہ راحت۔ مطلب یہ کہ وصول کے بعد مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا بلکہ غذا بن جاتا ہے، تمہارے نزدیک ہزار رکعت پڑھنا مجاہدہ ہے اور میرے نزدیک نہیں، کیوں کہ یادِ محبوب میری غذا بن گئی ہے، میرے نزدیک جیل خانے اور خسخانہ برابر ہے، کیوں کہ اپنی صفات کا فنا اور صفاتِ محبوب کا مشاہدہ مجھے ہر جگہ حاصل ہے۔(۲۶) ترکِ تقلید : حسین بن منصور کی عمر جب پچاس برس کی ہوئی فرمایا کہ اب تک میں نے مذاہبِ مجتہدین میں سے کوئی مذہب اختیار نہیں کیا، بلکہ جملہ مذاہب میں سے دشوار تر کو اختیار کیا ہے کہ خروج من الخلاف احوط ہے اور ایسی ترکِ تقلید بالاتفاق مذموم نہیں، ترک تقلید وہ مذموم ہے جس کا منشا اتباع رخص ہے اور اب کہ میری عمر پچاس سال کی ہے، ایک ہزار سال کی نمازیں پڑھ چکا ہوں اور ہر نماز غسل کرکے پڑھی، وضو پر اکتفا نہیں کیا۔ (۲۷) توکّلِ متعارف کا حال عدم اہتمام غذا ہے کہ اس چیز کی حرص نہ کرے، اللہ پر نظر رکھے جو وہاں سے عطا ہوجائے لے لے۔