انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محبت کی قسمیں اور ان کا حکم : تہذیب: محبت کی دو قسمیں ہیں: ایک عقلی، ایک طبعی اور مطلوب محبتِ عقلیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ محبوب کے احکام کی اطاعت کرے اور اپنی خواہش وارادہ کو اس کے احکام کے سامنے فنا کردے اور اس کے حکم پر کسی چیز کو ترجیح نہ دے، اور محبتِ طبعیہ میلان وانجذاب ووابستگی کانام ہے اور قاعدہ ہے کہ محبتِ طبعیہ خاص درجہ میں ایک ہی سے ہوسکتی ہے، دوسے ایک درجہ کی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ امر غیر اختیاری ہے۔ کیوں کہ اس کا مدار مناسبتِ طبع پر ہے جو بندہ کے اختیار میں نہیں، بلکہ مامور بہ محبتِ عقلیہ ہے۔ چناںچہ ہر مومن کو محبتِ عقلیہ اللہ ورسول کے ساتھ زیادہ ہے، گو طبعاً اپنی جان سے زیادہ محبت ہو۔محبتِ طبعی بھی ہر مسلمان میں ہے اور اس کی شناخت کا طریقہ : تہذیب: خدانا خواستہ خدا اور رسولﷺ کی شان میں کوئی کافر گستاخی کرے تو اس وقت ہر مسلمان کو جوش آتا ہے اور جان لینے اور دینے کو آمادہ ہوجاتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبتِ طبعی بھی ہر مسلمان میں ہے، پس اتنا فرق ہے کہ بعض میں ہر وقت اس کا ظہور ہوتاہے، اور بعض میں کسی محرکِ قوی سے ظہور ہوجاتاہے۔ محبتِ عقلیہ کی کمی کی شناخت: تہذیب: محبتِ عقلیہ کی کمی یہ ہے کہ مخلوق کی رضا کو حق تعالیٰ کی رضا پر ترجیح دی جائے۔ایمان کے لیے حبِّ عقلی رسولﷺ سے ضروری ہے نہ کہ حبِّ طبعی : تہذیب: لا یؤمن أحدکم حتی یکون اللّٰہ ورسولہ أحب إلیہ مما سواہما، یہاں بھی مراد احبیتِ عقلیہ ہے۔ یعنی حضورﷺ کے ساتھ حبِّ عقلی سب سے زیادہ ہونا چاہیے جس کا معیار یہ ہے کہ احکام میں حضورﷺ کی اطاعت ہو۔ اور تعارض کے وقت حضورﷺ کے حکم کو دوسرے کے احکام پر ترجیح دی جائے گو حبِّ طبعی میں کمی ہو اگرچہ طبعی محبت بھی ہر مسلمان کو حضورﷺ سے زیادہ ہے مگر تحقیق یہی ہے کہ طبعی محبت اگر کم بھی ہو تو مضایقہ نہیں نری عقلی تو کافی ہے مگر نری طبعی محبت کافی نہیں۔بہ نیت ازدیادِ محبت منعمِ حقیقیِ حظوظ کا درجہ بھی مطلوب ہے : تہذیب: ایک درجہ حظوظ کا بھی مطلوب ہے، وہ یہ کہ اس لیے حظوظ کا استعمال کیا جائے تاکہ منعم کی محبت بڑھے۔ پانی جب پیو خوب ٹھنڈا پیو، بال بال سے الحمد للہ نکلے گا۔عشق کی حقیقت تفویض ہے : تہذیب: عاشقی نام بندگی کا ہے کہ ہر وقت حکم کا تابع رہے، جہاں جان دینے کا حکم ہوا وہاں جان دے اور جہاں جان بچانے کا حکم ہو وہاں بچائے۔ خلاصہ یہ کہ عشق کی حقیقت تفویض ہے کہ اپنے کو خدا تعالیٰ کے سپرد کردے، وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، تشریعاً بھی اور تکویناً بھی اور یہ ہر حال میں راضی رہے۔ یہ حقیقت ہے تفویض۔ کی جس کی ابتدا شیخ کے ہاتھ میں اپنے کو تفویض کرنے سے ہوتی ہے۔