انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ان کے مقتضاء پر عمل کی نوبت آنے دی جاوے اور بجائے مغموم ہونے کے خطرات کو علامتِ ایمان سمجھ کر اس پر مطمئن اور مسرور رہے کہ بحمداللہ میرے عقائد تو صحیح ہیں اور دستور العمل مرقومہ نمبر ۳۱ کو معمول بنا کر بے فکر اور اطمینان کے ساتھ اپنے کو ذکر وطاعت اور ضروریاتِ دِینیہ ودُنیویہ میں بلا لحاظ دلچسپی وعدم دلچسپی مشغول رکھا جاوے، بلکہ (جیسا نمبر ۲ جزو سوم وچہارم میں تجویز کیا گیا ہے اُمورِ مباحہ کا بھی قدرے شغل رکھا جاوے کہ وہ بھی وقایہ ہو جاتے ہیں خطراتِ منکرہ کا۔ فرمایا کہ وساوس سے ایک گونہ ظلمت طبعی ہوتی ہے، مگر ہر تاریکی مانع قطعِ مسافت نہیں جب کہ وسائط صحیح ہوں۔ چناںچہ ریل کبھی تاریکی میں بھی چلتی ہے اس طرح کہ اس کی کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، بس ڈرائیور کا صاحبِ نور ہونا کافی ہوتا ہے اور ریل کا لائن پر ہونا۔ ان سب مذکورہ معالجوں کی شرائطِ نفع یہ ہیں کہ ان معالجات کو معالجہ سمجھ کر اور دفعِ خطرات کی نیت سے ہرگز نہ کیا جاوے، بلکہ مستقل اعمالِ مفیدہ سمجھ کر اختیار کیا جاوے اور نتیجہ خاص یعنی اندفاعِ خطرات کا بھی انتظار نہ کیا جاوے، ورنہ اس انتظار سے تعجیل اور تعجیل سے تقاضہ اور تقاضے سے تشویش پیدا ہوگی اور بھلا تشویش کے ہوتے ہوئے خطرات کیسے دفع ہوسکتے ہیں۔اُمورِ تربیت میں شیخ سے مزاحمت : فرمایا کہ اُمورِ تربیت میں میری رائے میں کسی کو مزاحمت نہ کرنا چاہیے، پس میں جس کے ساتھ جو معاملہ کروں، میرے سب احباب کو بھی یہی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص اس معاملہ کا اہل ہے، چوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد فرمارکھا ہے اس لیے وہی میری دستگیری فرماتے ہیں ورنہ میں کیا چیز ہوں۔بیعت بحالتِ سفر : حضرت والا کا عموماً سفر میں معمولِ بیعت نہیں تھا لیکن مریضوں اور عورتوں کی درخواستِ بیعت کو منظور فرما لیتے تھے، کیوں کہ مریض تو مرض کی وجہ سے واجب الرحم ہوتے ہیں اور عورتیں اہل الرّائے نہیں ہوتیں، ان بیچاریوں کا اعتقاد بالکل سیدھا سادھا اور سچا ہوتا ہے۔انتظار کیفیاتِ طبعیہ حسنہ : فرمایا کہ کیفیات طبعیہ حسنہ غیر اختیاریہ محمود تو ہیں، مقصود نہیں، لہٰذا دعا کا تو مضائقہ نہیں، لیکن ان کا منتظر رہنا خلاف اور بوجہ محل یکسوئی اور شاغل عن المقصود ہونے کے مُضر ہے۔اقتضائے عقلی وصدورِ اعمال : فرمایا کہ عقلی احوال بھی طبعی کیفیات سے بالکل خالی نہیں ہوتے، ورنہ محض اقتضائے عقلی صدورِ اعمال کے لیے عادتاً کافی نہیں اسی طرح بالعکس، البتہ ایک صورت میں عقلیت غالب ہوتی ہے اور طبیعت مغلوب اور دوسرے میں برعکس۔