انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اصلاحات کا اور یہی ہے اصل علاج تمام کو تاہیوں کا۔ سارے افعالِ شرعیہ اختیاری ہیں ورنہ نصوص کی تکذیب لازم آتی ہے پس اختیار کا استعمال کرے گا تو کامیابی لازم ہے البتہ دشواری اور کلفت اوّل اوّل ضرور ہوگی، لیکن اس کا علاج بھی یہی ہے کہ باوجود کلفت کے ہمت سے اور اختیار سے بہ تکلف اور بہ جبر کام لیتا رہے، رفتہ رفتہ وہ کلفت مبدل بہ سہولت ہو جائے گی سارے مجاہدے بس اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ اختیارِ اوامر اور اجتنابِ نواہی میں سہولت پیدا ہو جائے۔ اور اوّل اوّل تو ہر کام مشکل ہوتا ہے مگر کرتے کرتے مشق ہو جاتی ہے اور پھر نہایت سہولت کے ساتھ ہونے لگتا ہے، جیسے حفظ کا سبق شروع میں دشوار ہوتا ہے مگر رٹتے رٹتے یاد ہوجاتا ہے اگر شروع کی کلفت اور تعب کو دیکھ کر ہمت ہار دی تو پھر کوئی صورت ہی کامیابی کی نہیں۔ مسئلہ اختیار: ۲۔ مسئلہ اختیار کا اس قدر ظاہر ہے ہر شخص اپنے اندر صفتِ اختیار کو وجداناً اور طبعاً محسوس کرتا ہے چناں چہ جب وہ کوئی ناشائستہ حرکت کرتا ہے تو خجلت ہوتی ہے، اگر وہ اپنے کو مجبور سمجھتا تو خجلت کیوں ہوتی۔ انسان تو انسان جانوروں تک کو اس اختیار کاادراک ہوتا ہے۔ دیکھئے! اگر کسی کتے کو لکڑی ماری جائے تو مارنے والے پر حملہ کرتا ہے نہ کہ لکڑی پر۔اس کو بھی یہ امتیاز ہوتا ہے کہ کون مختار ہے اور کون مجبور۔ حضرت مولانا رومی ؒ نے نہایت سادہ اور سہل عنوان سے اس مسئلہ جبر واختیار کو بیان فرمایا ہے: زاریٔ ماشد دلیل اضطرار خجلت ماشد دلیل اختیار غرض نہ خالص جبر ہے نہ خالص اختیار ہے۔ اختیار خالص نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ماتحت ہے اختیار حق کے، مستقل اختیار نہیں ہے ۔ غرض کہ سالک جب تک صفتِ اختیار کو استعمال نہ کرے گا اصلاح ممکن نہ ہوگی، مثلاً: کسی میں بخل ہے تو نرے ذکر وشغل یا شیخ کی دعا وتوجہ وبرکت سے یہ رزیلہ ہرگز زائل نہ ہوگا۔ بلکہ نفس کی مقاومت ہی سے زائل ہوگا گو ذکر وشغل وغیرہ معین ضرور ہوجائیں گے مگر کافی ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اس طریق مین تو کام ہی سے کام چلتا ہے نری تمناؤں یا نری دعاؤں سے کچھ نہیں ہوتا: کارکن کار بگذراز گفتار