انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تحقیق: بیعت کی حقیقت وصورت اور اس کا درجہ: بیعت کی ایک حقیقت ہے، ایک صورتِ حقیقت، اس کی ایک عقد ہے درمیان مرشد ومسترشد کے، مرشد کی طرف سے تعلیم کا اور مسترشد کی طرف سے اتباع کا۔ پھر اگر مرشد اور مسترشد کے درمیان نبی اور اُمتی کا تعلق ہے تو نبی کی طرف سے تبلیغ اور اُمتی کی طرف سے ایمان جس میں سب احکام کا التزام ہے، اس حقیقت کی تحقیق کے لیے کافی ہے اور یہی محمل ہے اس قول کا اگر ثابت ہو: من لا شیخ لہ فشیخہ الشیطان مگر کوئی مسلمان اس کا مصداق نہیں اور یہ بیعت فرض ہے۔ اور اس کے بعد بھی اگر کسی خاص حکم کا یا احکام کا عہد لیا جاوے، وہ اس عہدِ مذکور کی تجدید ہے کما في حدیث عبادۃ بن الصامت قال: قال رسول اللّٰہﷺ: وحولہ عصابۃ من أصحابہ بایعوني إلی قولہ فبا یعناہ علی ذلک۔ متفق علیہ۔ (مشکاۃ، کتاب الإیمان) اور مرشد اور مسترشد دونوں اُمتی ہیں جیسا بعد عہد نبوت کے اور یہی وہ بیعت ہے جس کا لقب اس وقت پیری مریدی ہے تو وہ بھی مثلِ صورتِ ثانیہ کے تقویت ہے عہدِ اسلامی کی اور یہ اتباع ہے اس اس سنت کا جس کو اوپر تجدیدِ عہد کہا گیا ہے اور چوں کہ اس کا فرض یا واجب یا سنت موکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرتِ نبوت سے دین کی حیثیت سے منقول ہے، لہٰذا یہ بیعت مستحب ہوگی اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیت مذکورہ سے استدالال کیا ہے، محض بے دلیل اور تفسیر بالرّائے ہے، صحیح تفسیر وابتغوا إلیہ القرب بالطّاعات ہے۔ اسی طرح جب حضورﷺ سے اس پر مداومت ثابت نہیں، ہزاروں مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضورﷺ سے بیعت نہیں، لائے اس لیے اس کو سنّتِ موکّدہ نہیں بھی کہیں گے۔ یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے اور ایک اس کی صورت میں ہے، یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دے دینا، تو یہ عمل مباح ہے لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں، حتیٰ کہ اس کے استحباب کا حکم نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ حضورﷺ سے جو منقول ہے وہ بطورِ عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطورِ عادت کے ہے، کیوں کہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی، چناں چہ اسی عادت کی بنا پر صفقہ بھی کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بیعت معتادۂ صلحا حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں، لہٰذا اس کا درجہ علماً یا عملاً بڑھانا مثلاً: اس کو شرطِ نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا، یہ سب غلو فی الدین اور اعتدائِ حدود ہے۔ اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق تعارف کسی سے بیعت نہ ہو در خود علمِ دین حاصل کرکے یا علما سے تحقیق کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے، وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے، البتہ تجربہ سے یہ کلّیاً یا اکثراً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور صلاح کا مطلوب ہے وہ بدونِ اتباع وتربیت کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے