انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اژدہا بن جانے سے خائف ہونا مذکور ہے۔ اور صفتِ توکل بھی حضرات انبیاء ؑ میں کامل ہوتی ہے تو یہ خوف کس وجہ سے تھا؟ اور باوصف حضور معیت حق تعالیٰ کے اس خوف کا کیا سبب ہوا اور امورِ طبعی بشری کا ظہور باوجود حصول حضور معیت حق تعالیٰ ہوتاہے یا نہیں؟ براہِ کرم توکل کی حقیقت اور معیتِ حق تعالیٰ کا مفہوم بھی زیب قلم فرمایا جائے۔ جواب: خوف ایک امرِ طبعی مثل جوع وعطش وفرح وغضب وحزن وغیرہ کے ہے پس جیسے یہ کیفیت منافی کمالِ نبوت نہیں، ایسے ہی خوف بھی منافی نبوت کے نہیں، نہ منافی توکل، کیوںکہ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ غیر حق کی طرف باعتبار نفع وضرر کے قصداً التفات نہ ہو اور بلا قصد التفات ہوجانا جوکہ امرِ طبعی ہے منافی توکل کے نہیں اور اس التفات بلا قصد میں ایسا خوف نہیں ہوتا کہ کسی واجب کے ترک کا سبب ہوجائے۔ جیسا عوام کو ایسا بھی ہوجاتاہے اور اسی تفصیل کی بنا پر سورئہ احزاب میں حضورِ اقدسﷺ کی نسبت {تَخْشَی النَّاسَ} [الآیۃ: ۳۷] فرمایا ہے اور حضرات رسل ؑ کی نسبت جس میں حضورِ اقدس ﷺ بھی داخل ہیں، {یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَط} [الأحزاب: ۳۹] فرمایا ہے۔ {یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ} قرینہ واضحہ ہے کہ مامور بہ یعنی واجب یا مندوب میں یہ خوف حائل نہیں ہوتا، یہ تو توکل کے منافی نہ ہونے کی تقریر تھی، باقی رہی معیت کی بحث تو معیت کے انواع مختلف ہیں ایک معیتِ علمیہ یعنی حق تعالیٰ کے علم کا ہر ایک کو محیط ہونا، یہ معیت عام ہے ہر شعبے کو، مومن کو بھی کافر کو بھی، مکلفین کو بھی غیر مکلفین کو بھی۔ قال اللّٰہ تعالی: {اَنَّ اﷲَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا} [الطلاق: ۱۲] اور یہی معیت ہے اس آیت میں {وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْط} [الحدید: ۴] اور اس عموم کا اعتقاد منجملہ عقائد لازم کے ہے اور یہ معیت سب کے لیے ثابت ہے خواہ وہ اس کا معتقد بھی نہ ہو تو اس معیت کے ساتھ خوف کا منافی نہ ہونا تو ظاہر ہے اور یہ معیت عام کہلاتی ہے۔ دوسری نوع معیت خاص ہے یعنی معیت بالرحمۃ، معیت بالنصرۃ، پھر رحمت کی صورتیں بھی مختلف ہیں اسی طرح نصرت کی بھی۔ یہ بجمیع اقسامہا عام نہیں ہے (بلکہ اس کے ایسے عموم کا اعتقاد واجب ہے جس کے ساتھ وعدہ ہے۔ حسب وعدہ اس کا اعتقاد اس پر واجب ہے اور اسی اعتقاد کے موافق عمل لازم ہے)۔ کاملین خصوص انبیا ؑ میں نہ اس اعتقاد کی کمی کا احتمال ہے اور نہ اس اعتقاد کے مقتضا پر عمل میں کوتاہی کا احتمال ہے۔ پس جب تک حق تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ نہ ہو کہ یہ اژدہا تم کو ضرر نہ پہنچا سکے گا اس وقت تک نہ اس کا اعتقاد موسیٰ ؑ پر واجب ہے اور نہ عدمِ فرار واجب۔ کیوں کہ جس معیت کا وعدہ نہیں اس کا اعتقاد یا اس پر عمل بھی واجب نہیں اور بوجہ احتمالِ ضرر کے اس سے فرار بھی جائز، اور یہی خوف ضرر ہوا تھا۔ موسیٰ ؑ کو بھی فرعون کے پاس جانے میں مگر جب وعدہ ہوگیا {اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی} [طٰہٰ: ۴۶] تو پھر کیسی بے دھڑک گفتگو فرمائی اور اس تقریر سے معیت کی حقیقت مع اقسام