انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۲) دعا مانگنے کو طبیعت نہیں چاہتی جس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اتنی مدت ہوگئی قبول بھی ہوئی بس جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے وہی ہوگا۔ (۳) روز گار کی قلت کا اثر جیسا عام دنیاپر ہے ویسا ہی یا اس سے کسی قدر زائد مجھ پر ہے، خیال یہ ہوتاہے کہ دنیا کی راحت مال سے ہے ، مال کی طلب جائز یا ناجائز طریقہ سے جس طرح ہوسکے کرنی چاہیے وظائف میں وقت دینے سے اور اس پر صبر کرنے سے دنیا کی راحت وآسانی ہرگز حاصل نہ ہوگی۔ تحقیق: علاج کلی اور مفید تو یہی ہے کہ ان وساوس کو اعتقاداً ابرا سمجھا جائے اور ان کے مقتضا پر عمل نہ کیا جائے یہ از خود دفع ہوجائیں گے۔ اور اگر دفع بھی نہ ہوں تو مضر نہیں بلکہ یہ ایک گونا مجاہدہ جس سے عمل کا اجر بڑھتا ہے، لیکن اگر ان وساوس کی وجہ فساد ہی معلوم کرنے کا شوق ہو تو مجملا اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ (۱) مقصود اعمالِ صالحہ سے راحتِ دنیا نہیں ہے بلکہ راحتِ آخرت ہے اور اس کا مدار جو فضل ورحمت ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ اعمال کو دخل نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ ملے گا تو عمل ہی سے لیکن جتنا ملے گا اتنا اثر اعمال میں نہیں وہ فضل ورحمت کا اثر ہے لیکن جو عمل ہی نہ کرے گا وہ قانوناً اس فضل ورحمت سے بھی محروم رہے گا، باقی طبیعت کا لگنا یہ شرطِ قبول نہیں ہے، اگر دوا پینے میں طبیعت نہ لگے تب بھی اس کی خاصیت یعنی صحت مرتب ہوگی۔ (۲) دعا قبول ضرور ہوتی ہے مگر اس کے قبول ہونے کی وہ حقیقت ہے جو مریض کی اس درخواست کی منظوری کی حقیقت ہے کہ کبھی طبیب سے درخواست کرے کہ میرا علاج مسہل سے کردیجیے اور فوراً علاج کردے۔ مگر مسہل اس کی حالت کے مناسب نہ تھا۔ اس لیے دوسرے طریقہ سے علاج شروع کردیا۔ اس کو کوئی یوں نہیں کہہ سکتا کہ طبیب نے جب مسہل نہیں دیا تو مریض کی درخواست کو منظور نہیں کیا۔ اسی طرح اصل مطلوب دعا سے حق تعالیٰ کی توجہ خاص ہے اور عبد نے جو طریقِ معین اختیار کیا ہے یہ بھی مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود کا محض ایک طریق ہے جیسے اس مقصود کے اور بھی طریق ہیں لہٰذا وہ جس طریق سے توجہ خاص فرماویں وہ اجابت دعا ہی ہے یہ تو طاعات وحاجات میں کلام ہے، باقی معاصی کا ارتکاب جو موصل الی النار ہو وہ ایسا ہے جیسے مریض کو بد پرہیزی سے لذت ملتی ہے اور اس سے صبر کرنے میں لذت فوت ہوجاتی ہے، لیکن جو شخص جانتا ہے کہ لذت مقصود نہیں صحت مطلوب ہے وہ صبر کرے گا اسی طرح جس شخص کو نجاتِ آخرت مقصود ہے وہ راحتِ دنیا کو مقصود نہ سمجھے گا۔ رہی سزا گناہ کی کسی کو یہاں ملتی ہے کسی کو وہاں، تجویز مناسب بلکہ واجب یہی ہے کہ طاعات میں حتی الامکان مشغول ہوں معاصی سے مجتنب رہیں اور مقصود صرف رضائے حق کو سمجھیں خواہ اس کا ظہور یہاں ہو یا وہاں اور ایسی حالت میں روزگار کا وظیفہ پڑھنا وساوس میں اضافہ کرنا ہے۔