انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ ایک طالب نے عبادت میں کسل وسُستی کا علاج پوچھا؟ تحریر فرمایا کہ سُستی کا علاج چُستی ہے۔ ۲۔ ایک طالب نے غلبۂ خشیت میں لکھا مجھے سخت خطرہ ہے، تحریر فرمایا کہ یہ خطرہ بحرِ معرفت کا قطرہ ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر دریا کرے۔ ۳۔ حضرت خواجہ صاحب نے ایک عریضہ میں کسی باطنی پریشانی کے سلسلہ میں لکھا تھا کہ سخت اُلجھن ہوتی ہے؟ اس پر فرمایا کہ یہ الجھن مقدمہ ہے سلجھن کا۔ {اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاط} [الشرح: ۶]۔ چوں کہ قبض آمد تو در وے بسط بین ۴۔ فرمایا کہ یہ امر بسہولت یاد رکھنے کے لیے شیخ کے ساتھ طالب کو کیا معاملہ رکھنا چاہیے؟ بس ان ہم قافیہ الفاظ کو یاد رکھے۔ اطلاع اور اتباع، اعتقاد وانقیاد۔ ۵۔ ایک بار فرمایا کہ اس طریق میں خود رائی نہ کرے بلکہ خود کو رائی کرے، یعنی اپنے کو حقیر وذلیل سمجھے۔ ۶۔ ایک صاحب کو خیال ہوگیا تھا کہ وہ ابدال ہوگئے۔ فرمایا کہ ہاں پہلے گوشت تھے، اب دال ہوگئے، یعنی عجب سے وہ گھٹ گئے۔ ۷۔ شملہ کے سفر کے بعد وہاں کی بُرائیاں جو غالب ہیں بیان فرما کر فرمایا کہ ہم تو سُنا کرتے تھے کہ شملہ بمقدارِ علم ہوگا (یعنی اچھی جگہ ہوگی) لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شملہ بمقدارِ جہل ہے (یعنی بُری جگہ ہے)۔ ۸۔ ایک طالب کا خط فضول مضمون سے لبریز تھا اور آخر میں لکھا تھا کہ مضمون طویل ہونے سے تکلیف ضرور ہوئی ہوگی، معاف فرمائیں۔ حضرتِ والا ؒ نے یہ جواب تحریر فرمایا کہ طویل ہونے سے تو تکلیف نہیں ہوئی مگر لا طائل ہونے سے ہوئی۔ ۹۔ فرمایا کہ آج کل لوگوں کی مال پر تو نظر ہے، مآل پر نہیں۔ ۱۰۔ فرمایا کہ درستی تو دُرشتی ہی سے ہوتی ہے۔ ۱۱۔ ایک بار کسی سے اظہارِ خفگی کے وقت فرمایا کہ میں بھی بشر ہوں اور بشر بھی وہ جس میں باجارّہ ہے، فاکلمہ نہیں۔ ۱۲۔ فرمایا کہ آج کل کے اکثر مدعیانِ توکّل اہلِ توکّل کیا اہل تآکل ہیں۔ ۱۳۔ فرمایا کہ آجل کل بعض طلبا کی دستار بندی تو ہو جاتی ہے، لیکن ان میں دس تار تو کیا ایک تار بھی علم وعقل کا نہیں ہوتا۔