آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
۹؍رجب المرجب ۱۴۱۹ھ مطابق۳۱؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، بروز ہفتہصحبتِ اہلِ تقویٰ فرضِ عین ہے ۳۱؍اکتوبر ۱۹۹۸ء بروز ہفتہ اسٹینگر سے جوہانسبرگ کے لیے واپسی ہوئی۔ دارالعلوم اسپنگوبیچ کے ذمہ دار حضرات کی خواہش پر حضرت والا ایئرپورٹ جاتے ہوئے چند منٹ کے لیے دارالعلوم رُکے اور چند الفاظ میں طلباء کو یہ نصیحت فرمائی: علمِ دین حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے اور تقویٰ حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور تقویٰ اہلِ تقویٰ کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، اس لیے صحبتِ اہلِ تقویٰ بھی فرضِ عین ہے۔ مدارس اِرَاءَ ۃُ الطَّرِیْق کرتے ہیں اور اہل اللہ اِیْصَالْ اِلَی الْمَطْلُوْب کرتے ہیں، مدارس عالمِ منزل بناتے ہیں اور اہل اللہ بالغِ منزل بناتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت والا نے مختصر دعا فرمائی اور ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ۱۰؍رجب المرجب ۱۴۱۹ھ مطابق یکم نومبر ۱۹۹۸ ء، بروزاتوار ،بوقت سات بجے صبح، بمقام ڈیڈر(Dedur)، جنوبی افریقہ، در مدرسہ مولانا غلام حسین صاحبنفس کی پانچ اقسام ارشاد فرمایا کہ خالقِ نفس نے قرآنِ پاک میں نفس کے پانچ نام رکھے ہیں ۔پہلا نام ہے نفسِ امّارہ۔ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ جملہ اسمیہ ہے جو ثبوت و دوام کا متقاضی ہوتا ہے یعنی اے دنیا کے انسانو! جب تک تم نفسِ امّارہ کے غلام رہوگےاس وقت تک تم بُرائیوں میں مبتلا رہوگے، کیوں کہ نفس امّارہ کَثِیْرُ الْاَمْرِ بِالسُّوْء ہے، اور اَلسُّوْءمیں الف لام جنس کا ہے جس نے سوء کو اسمِ جنس بنادیا اور جنس وہ کُلّی ہے جو انواعِ مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ زمانۂ نزولِ قرآن سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے گناہوں کے تمام اقسام اس اَلسُّوْءمیں داخل ہوگئے۔سُوْءپر الف لام داخل کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی عظمت و بلاغت ظاہر فرمادی کہ ہزارہا سال بعد جب گناہوں کے نئے نئے اقسام مثلاًسینما،ٹیلی ویژن، ریڈیو وغیرہ پیدا ہوں اور لوگ کہیں کہ ان کی ممانعت کہاں ہے، کیوں کہ جب قرآن نازل ہورہا تھا تو یہ گناہ اس وقت موجود نہیں تھے، تو سوء کو الف لام سے اسمِ جنس بنا کر قیامت تک معصیت کے تمام انواع و اقسام اللہ تعالیٰ نے اس میں داخل کردیے۔