آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مرادِ نبوت اﷲ سے دوری سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں ہے، اﷲ سے دوری دوزخ سے بڑھ کر عذاب ہے، اس لیے گناہ سے بچو، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ النَّارِگناہ دوزخ سے زیادہ اذیت والی چیز ہے، اﷲ کی ناراضگی میں دوزخ سے زیادہ صدمہ اور عذاب ہے، اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی ناراضگی سے پناہ مانگی اور دوزخ کو درجۂ ثانوی کیا، مزاجِ نبوت کو پہچانو اور عشقِ نبوت کو حاصل کرو کہ گناہ چھوڑو اﷲ کی ناراضگی کی وجہ سے، اور جہنم کو درجۂ ثانوی میں رکھو اور نیک کام اﷲ کی رضا کے لیے کرو اورجنت کو درجۂ ثانوی میں رکھو۔ یہ ہے تعلیمِ نبوت،مزاجِ نبوت، مقامِ نبوت اور مرادِ نبوت۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ؎ میں اﷲ کی رضا کے مقابلہ میں جنت درجۂ ثانوی میں ہے یا نہیں؟معافی کے ساتھ تبدیل سیئات بالحسنات کی عارفانہ دعا لیکن کوئی مایوس نہ ہو، بعض لوگوں نے جوانی میں گناہ کرلیے تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ؎ آں چنیں کردم کہ از من می سزید تا چنیں سیلِ سیاہی در رسید اگرچہ ہم نے بہت سی بدمعاشیاں اور زِنا اور ہر گناہ کرلیا، کیوں کہ ہم اسی لائق تھے، ہم نالائق ہیں، نالائقوں سے تو نالائقی ہی ہوگی،یہاں تک کہ ہمارے اندر اندھیروں اور ظلمات کا سیلاب آگیا۔ سیل کے معنیٰ ہیں سیلاب، لیکن اے اﷲ! آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں ؎ اے خدا آں کن کہ از تو می سزد کہ ز ہر سوراخ مارم می گزد آپ ہمارے ساتھ وہ معاملہ فرمائیے جو آپ کے لائق ہے، آپ کو زیبا ہے۔ آہ! کیا مضمون ہے مولانا رومی کا۔ میں کہتا ہوں کہ مولانا رومی تصوف کے بادشاہ تھے، تو مولانا فرمارہے ہیں کہ گناہ کرنے سے اب میرے جتنے سوراخ ہیں ہر سوراخ سے نفس کا سانپ ہم کو ڈس رہا ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جو گناہ کرلیتا ------------------------------