آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
شیطان کو مایوسی ہو کہ گناہ تو توبہ سے معاف کرالیا اور چار رکعات اور اسٹاک کرلیا، میری بزنس تو لاس (Loss)میں جارہی ہے۔ یہ حکیم الامت کے ارشادات ہیں کہ لوگ خالی توبہ کرلیتے ہیں، شیطان اس کو کہتا ہے کہ میاں خوب گناہ کرلو، توبہ کرنے کے لیے زبان ہی تو خرچ کرنی ہے، اس لیے نفس سے چار چھ رکعات نماز بھی پڑھواؤ، جو کمزور یا مریض ہیں ان کے لیے دو رکعات کافی ہے، اگر کھڑے نہیں ہوسکتے ہو تو بیٹھ کے دو رکعات توبہ پڑھ لو تب شیطان مایوس ہوتا ہے کہ استغفار و توبہ سے تو گناہ معاف کرا لیے اور دو رکعات توبہ پڑھ کر اس کے نیکیوں کا اسٹاک اور بڑھ گیا لہٰذا اس شخص پر ہماری بزنس لاس(Loss) میں جارہی ہے۔ بعض لوگ شیخ کی باتوں پر عمل نہیں کرتے ایک نہ ایک عذر نکال لیتے ہیں کہ میں تو اور بہت کام کررہا ہوں میرے لیے نفل پڑھنا ضروری نہیں ہے، مرنے کے بعدمعلوم ہوگا کہ شیخ کی نافرمانی سے تم کتنے خسارے میں گئے، اُس وقت تلافی بھی نہیں ہوگی، اصلی وفادار مرید وہ ہے جو شیخ کی بات پر شیخ کے سامنے اور غیر حاضری میں غائبانہ اور حاضرانہ عمل کرے چاہے شیخ کو پتا ہو یا نہ ہو، جب بدنظری ہوجائے تو ہر بدنظری پر دو رکعات توبہ کی نفل پڑھ لو،کثرتِ بدنظری پر آدمی ایک ہزار رکعات صلوٰۃِ توبہ نہیں پڑھ سکتا تو کم سے کم دو رکعات تو توبہ کی نیت سے پڑھ لو رات کو عشاء کے بعد، اسی میں تہجد کی نیت بھی کر لو اور اسی میں توبہ کی بھی نیت کرلو اور اسی میں حاجت کی نیت بھی کرلو، دن بھر کے گناہ سے معافی مانگ لی اور اﷲ سے اﷲ کو مانگ لیا اور تہجد گزار الگ ہوگئے، مگر ندامت بھی طاری ہوکہ ہم کتنے کمینے اورنالائق ہیں کہ غلام ہوکر اپنا دل نہیں توڑتے اور آپ کاقانون توڑتے ہیں، ہماری گستاخی پر اگر آپ رحم نہیں کریں گے تو ہم برباد ہوجائیں گے۔ہر گناہ گار بے غیرت ہے اصل میں ہر نافرمان غیر شریف ہے، شرافتِ حیا، شرافتِ عبدیت اور انسانیت نہیں ہے، ہر مجرم بے حیا ہوتا ہے، ہرگناہ گار بے غیرت اور بے حیا ہوتا ہے، اگر حیا ہوتو مارے شرم کے گناہ نہیں کرے گا کہ میں کس طرح اﷲ کا قانون غضِ بصر توڑوں جبکہ اﷲ ہماری آنکھ کو دیکھ رہا ہے۔ اور حسینوں کو دیکھنے میں کیا ہے؟ کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اور پھر آدمی صرف گال اور بال دیکھنے تک محدود نہیں رہتا اس کی نظر گُو مُوت کی گندی نالیوں میں گھس جاتی ہے ؎ عاشقِ حسن کو زلف کالی ملی نیچے اُترا تو بس گندی نالی ملی