آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اللہ کی ذات بے مثل ہے اگر کسی کو کوئی زبردست قسم کی حسین لیلیٰ مل جائے تو جو عاشق مزاج ہوتا ہے اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اگر مجھے کروڑوں جانیں مل جائیں تو ہم اس پر فدا کردیں۔ تو یہ مولیٰ کا حق ہے کہ ان پر مرو، یہ حسین توخود ہی مرنے والے ہیں، مرنے والوں پر مرنے کی کوئی قیمت نہیں ہے، مردہ مثبت مردہ ٹوٹل مردہ۔ لہٰذا زندہ حقیقی پر مرنا سیکھو، مرتبۂ روح میں اﷲپر فدا ہوتے رہو۔ انسان کے پاس دو مرتبے ہیں، ایک جسم کے لحاظ سے اﷲ پر فدا ہوتے ہیں، دوسرا روح کے اعتبار سے اﷲ پر فدا ہوتے ہیں، پھر دیکھو زندگی کا مزہ کیا ہے؟ اﷲ اتنا پیارا ہے کہ جنت میں جا کرکے جب اﷲ کو دیکھو گے تو جنت ہی کو بھول جاؤگے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب اﷲ سامنے ہوگا، جب جنت میں اﷲ کا دیدار ہوگا تو اتنا مزہ آئے گا، اتنا مزہ آئے گا کہ جنت کی کوئی نعمت یاد ہی نہیں رہے گی ؎ کہاں خرد ہے کہاں ہے نظامِ کار اس کا یہ پو چھتی ہے تری نرگس خمار آلود تیرے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی سب ٹکٹکی باندھے اﷲ کو دیکھیں گے، جنت کا خیال بھی نہیں آئے گا کہ کہاں ہے۔ اﷲاﷲ ہے، اﷲ بے مثل ذات ہے، غیر محدود ہے، جنت کا خالق ہے، لیلاؤں میں ذرا سانمک رکھ دیتا ہے تو لوگ پاگل ہوجاتے ہیں، تو اﷲ کو دیکھنے کے بعد کیا حال ہوگا؟ میری بات سمجھ میں آرہی ہے کہ نہیں،یا مشکل مضمون ہے؟ بولو بھئی! اور عاشقوں کو تو یہ بات بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے، رومانٹک مزاج والوں کو اپنے کو فدا کرنا بہت جلد سمجھ میں آجاتاہے۔ میرصاحب کا مصرع ہے ؏ سرکٹانے کی تمنا تیرے دیوانے میں ہے اب میرے پاس الفاظ نہیں رہے، اب میرے پاس لغت ختم ہوگئی، اﷲ کی غیر محدود عظمتوں کو اختر فانی اور محدود لغتوں سے تعبیر کرنے سے قاصر اور معافی کا خواستگارہے۔ اب دعا کرو کہ اﷲ آپ اپنی رحمت سے کسی کو محروم نہ فرمائیے، نہ اختر کو، نہ میرے دوستوں کو، نہ میری اولاد کو، ہم سب کو اولیائے صدیقین کی خطِ منتہا