آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
پڑھنے گیا اور وہ مسلمان ہے، پاکستانی ہے اور ایک نوجوان انگریز لڑکی کو اس نے دبوچ لیا اور چما چاٹی کر رہے ہیں،(وہاں کوئی حیا نہیں ہے، سڑک کے کنارے زِنا ہو اور دونوں راضی ہوں تو پولیس کچھ نہیں کہتی لیکن اگر پیشاب لگا ہو اور سڑک کے کناے پیشاب کر لو تو سو پونڈ بلکہ اس سے بھی زیادہ جرمانہ لگتا ہے۔ ) اس کے ساتھیوں نے تصویر لے لی کہ وہ لڑکی کو پکڑے ہوئے ہے۔ بعد میں اس کو خبر ملی کہ وہ لڑکا عمرہ کر آیا ہے اورکسی شیخ سے بیعت ہوگیا اور خلافت بھی مل گئی اور خانقاہ میں بیٹھا ہے اور لاکھوں مریدوں کو سبق بھی دے رہا ہے، سلوک کی منازل طے کرارہاہے۔ تو اس نے ٹکٹ کٹایا جہاز پہ بیٹھا کہ ابھی اس کی خبر لیتا ہوں کہ بہت بڑے مقدس اور بایزیدبنے ہوئے ہیں، میں اسے ننگِ یزید ثابت کروں گا، جب اس نے مریدوں کو کہا کہ اے مریدو! یہ تمہارے حضرت ایک انگریز لڑکی کے ساتھ لیٹے ہوئے چما چاٹی کررہے ہیں تو کتنی بے عزتی ہوتی! اس لیے اﷲ تعالیٰ نے تصویر کو حرام فرما کر اپنے غلاموں کی بُرائیوں کے دستاویزات کو ختم کردیا۔ تو یہ عین احسان ہے، مالک کا کرم ہے اور اپنے غلاموں کے ساتھ ان کی محبت ہے، جیسے ابا نہیں چاہتا کہ میرے بچے رُسوا ہوں تو ربا بھی نہیں چاہتا کہ میرے بندے رُسوا ہوں۔گناہوں پر گریہ و زاری حیاتِ ایمانیہ کی دلیل ہے اچھا اب سنیے یہ بھی ایک علمِ عظیم ہے کہ ماں کی چھاتیوں میں خون بھرا ہوا ہے، جو چاہے ایکسرے کر لے چاہے آپریشن کر کے دیکھ لے، لیکن جب بچہ پیدا ہوا اور رویا تو رونے سے ماں کے دل کی مامتا اور اس کی رحمت جوش میں آتی ہے جس سے اس کا خون دودھ میں کنورٹ (Convert)ہوجاتا ہے اور محلے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بچہ زندہ پیدا ہوا ہے۔ جب بندہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر آہ و زاری کرے، اشکباری کرے تو یہ اس کی حیاتِ ایمانیہ کی دلیل ہے ورنہ وہ مردہ ہے جو گناہ کر کے شرمندہ بھی نہ ہو، ہر وقت گناہوں میں گندا رہے اور اس کو آہ وزاری نصیب نہ ہو تو سمجھ لو کہ یہ مردہ ہے، صورتاً زندہ ہے، اس کو حیاتِ حیوانی حاصل ہے، حیاتِ ایمانیہ حاصل نہیں ہے جیسے جانور کتا، بلی، بکری، بیل بھی زندہ ہیں، کھا بھی رہے ہیں پی بھی رہے ہیں مگر حیاتِ ایمانیہ اس کو حاصل ہے جس کو رونے کی عادت نصیب ہوجائے، اور اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے والوں کی شکل تو بنا لے اس کو بھی اﷲتعالیٰ نے رونے والوں میں داخل فرمایا ہے، لیکن شکل بنانے سے رونا افضل ہے اِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا اگر رو نہ سکو تو فَتَبَاکَوْا ہے کہ رونے والوں کی شکل ہی بنالو لیکن اعلیٰ درجہ رونا ہی ہے، رونا نہ آنے پر شفقت ہے شریعت کی کہ چل ظالم شکل ہی بنا لے ورنہ اگر رونا اصل نہ ہوتا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رونے کی دعا نہ مانگتے: